Wamiq Jaunpuri

وامق جونپوری

ممتاز ترقی پسند شاعر، اپنی نظم ’بھوکا بنگال کے لیے مشہور

Prominent progressive poet, famous for his nazm ‘Bhooka Bangal’

وامق جونپوری کی غزل

    فن کار کے کام آئی نہ کچھ دیدہ وری بھی

    فن کار کے کام آئی نہ کچھ دیدہ وری بھی کرنا پڑی شہزادوں کو دریوزہ گری بھی اک سلسلۂ دار و رسن پھیلا ہوا ہے منجملہ خطاؤں کے ہے صاحب نظری بھی جن ہاتھوں نے پھاڑے نہ کبھی جیب و گریباں ان ہاتھوں سے ہو سکتی نہیں بخیہ گری بھی ان سے تو بہر طور ہر اک راہزن اچھا جو راہزنی کرتے ہیں اور ...

    مزید پڑھیے

    زہراب پینے والے امر ہو کے رہ گئے

    زہراب پینے والے امر ہو کے رہ گئے نیساں کے چند قطرے گہر ہو کے رہ گئے اہل جنوں وہ کیا ہوئے جن کے بغیر ہم اہل خرد کے دست نگر ہو کے رہ گئے صحرا گئے تو شہر میں اک شور مچ گیا جب لوٹ آئے شہر بدر ہو کے رہ گئے امید کے حبابوں پہ اگتے رہے محل جھونکا سا ایک آیا کھنڈر ہو کے رہ گئے راہوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    اس طرح سے کشتی بھی کوئی پار لگے ہے

    اس طرح سے کشتی بھی کوئی پار لگے ہے کاغذ کا بنا ہاتھ میں پتوار لگے ہے آزاد لگے ہے نہ گرفتار لگے ہے دیوانے کو در آہنی دیوار لگے ہے اک لاش ہے لیکن بڑی جاں دار لگے ہے شعلہ سی کوئی چیز سر دار لگے ہے پہچان لو اس کو وہی قاتل ہے ہمارا جس ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار لگے ہے خاموش گراں بار ...

    مزید پڑھیے

    دیوانے دیوانے ٹھہرے کھیل گئے انگاروں سے

    دیوانے دیوانے ٹھہرے کھیل گئے انگاروں سے آبلہ پائی اب کوئی پوچھے ان ذہنی بیماروں سے بات تو جب ہے شعلے نکلیں بربط دل کے تاروں سے شور نہیں نغمے پیدا ہوں تیغوں کی جھنکاروں سے کس نے بسایا تھا اور ان کو کس نے یوں برباد کیا اپنے لہو کی بو آتی ہے ان اجڑے بازاروں سے کیسے گلے ملتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سرخ دامن میں شفق کے کوئی تارا تو نہیں

    سرخ دامن میں شفق کے کوئی تارا تو نہیں ہم کو مستقبل زریں نے پکارا تو نہیں دست و پا شل ہیں کنارے سے لگا بیٹھا ہوں لیکن اس شورش طوفان سے ہارا تو نہیں اس غم دوست نے کیا کچھ نہ ستم ڈھائے مگر غم دوراں کی طرح جان سے مارا تو نہیں دکھ بھرے گیتوں سے معمور ہے کیوں بربط جاں اس میں کچھ گرسنہ ...

    مزید پڑھیے

    شیشہ اس کا عجیب ہے خود ہی

    شیشہ اس کا عجیب ہے خود ہی وہ ہمارا رقیب ہے خود ہی جان کر ہم نہیں لگاتے دل دل سے ہر بت قریب ہے خود ہی ہم کو حاجت نہیں نقیبوں کی شعر اپنا نقیب ہے خود ہی کوئی ہم کو صلیب کیا دے گا فن ہمارا صلیب ہے خود ہی شاعری کوئی خود نہیں منحوس شعرگو بد نصیب ہے خود ہی ملک کو مال وقف مت جانو قوم ...

    مزید پڑھیے

    اپنا اعجاز دکھا دے ساقی

    اپنا اعجاز دکھا دے ساقی آگ سے آگ بجھا دے ساقی نقش بیداد مٹا دے ساقی ہم کو آزاد بنا دے ساقی وہ اٹھیں کالی گھٹائیں توبہ اب تو پینے کی رضا دے ساقی جس سے سوئے ہوئے دل چونک اٹھیں نغمہ اک ایسا سنا دے ساقی تجھ کو مستقبل زریں کی قسم پچھلی باتوں کو بھلا دے ساقی صدر مے خانہ بنایا تھا ...

    مزید پڑھیے

    دل پریشاں ہے نہ جانے کس لیے

    دل پریشاں ہے نہ جانے کس لیے حشر ساماں ہے نہ جانے کس لیے پر سکوں گہرائیوں میں ضبط کی شور طوفاں ہے نہ جانے کس لیے لاکھ آباد تمنا ہو کے دل پھر بھی ویراں ہے نہ جانے کس لیے میری بربادی پہ میرا ہر نفس زہر خنداں ہے نہ جانے کس لیے تشنۂ ہمت جو تھا ذوق فنا آج آساں ہے نہ جانے کس لیے خالی ...

    مزید پڑھیے

    خلش سکوں کا مداوا نہیں تو کچھ بھی نہیں

    خلش سکوں کا مداوا نہیں تو کچھ بھی نہیں شکست ساز میں نغمہ نہیں تو کچھ بھی نہیں جسے زمانہ کہے اضطراب کا عالم وہ زندگی کا سہارا نہیں تو کچھ بھی نہیں سرود بانگ مؤذن نہیں دلیل سحر مژہ پہ صبح کا تارا نہیں تو کچھ بھی نہیں ہوا کریں ترے کان آشنائے شور جرس سفر کا دل میں ارادہ نہیں تو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے

    کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے کسی شیشے پہ میرا نام بھی ہے وہ چشم مست مئے بھی جام بھی ہے پھرے تو گردش ایام بھی ہے نوائے چنگ و بربط سننے والو پس پردہ بڑا کہرام بھی ہے مری فرد جنوں پہ اے بہارو گواہوں میں خزاں کا نام بھی ہے نہ پوچھو بے بسی اس تشنہ لب کی کہ جس کی دسترس میں جام بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3