سرخ دامن میں شفق کے کوئی تارا تو نہیں

سرخ دامن میں شفق کے کوئی تارا تو نہیں
ہم کو مستقبل زریں نے پکارا تو نہیں


دست و پا شل ہیں کنارے سے لگا بیٹھا ہوں
لیکن اس شورش طوفان سے ہارا تو نہیں


اس غم دوست نے کیا کچھ نہ ستم ڈھائے مگر
غم دوراں کی طرح جان سے مارا تو نہیں


دکھ بھرے گیتوں سے معمور ہے کیوں بربط جاں
اس میں کچھ گرسنہ نظروں کا اشارا تو نہیں


اشک جو دے نہ اٹھے لو سر مژگاں آ کر
صرف اک قطرۂ شبنم ہے شرارہ تو نہیں


اک اجالا سا جھلکتا ہے پس پردۂ شب
چشم بے خواب میں لرزاں کوئی تارا تو نہیں


کتنی امیدوں پہ جیتا رہا وامقؔ اب تک
اب مگر اک یہی جینے کا سہارا تو نہیں