Wamiq Jaunpuri

وامق جونپوری

ممتاز ترقی پسند شاعر، اپنی نظم ’بھوکا بنگال کے لیے مشہور

Prominent progressive poet, famous for his nazm ‘Bhooka Bangal’

وامق جونپوری کی نظم

    جشن نوشین

    گھروں سے بچو نکل آؤ گر رہی ہے برف بجاؤ تالیاں اور گاؤ گر رہی ہے برف فلک سے فرش زمیں پر برس رہا ہے نور چھتوں پہ کھیتوں پہ شاخوں پہ بس رہا ہے نور چمن ہے نور کی اک ناؤ گر رہی ہے برف فضا میں چاروں طرف سرمئی اجالا ہے تھی بوند پانی کی اب روئی کا جو گالا ہے دلوں کو شوق سے گرماؤ گر رہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    الف لیلہ

    تھک گئی رات مسکنے لگا غازہ کا فسوں سرد پڑنے لگیں گردن میں حمائل بانہیں فرش بستر پہ بکھرنے لگے افشاں کے چراغ مضمحل سی نظر آنے لگیں عشرت گاہیں زندگی کتنے ہی ویرانوں میں دم توڑ چکی اب بھی ملتی ہیں مگر غم کی فسردہ راہیں جس طرح طاق میں جل بجھتی ہیں شمعوں کی قطار ظلمت شب میں جگاتی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    مداوا

    کتنے بیباک ہیں شاعر اب کے کتنے عریاں ہیں یہ افسانہ نگار کچھ سمجھ میں مرے آتے ہی نہیں ان ادب سوزوں کے گنجلک اشعار یوں تو اپنے کو یہ کہتے ہیں ادیب پڑھتے ہیں جنگ کے لیکن اخبار کبھی یورپ کا کبھی پورب کا ذکر کرنے میں اڑاتے ہیں شرار داستانیں نہ قصیدے نہ غزل ادب تلخ کی ہر سو بھر مار کبھی ...

    مزید پڑھیے

    بھوکا بنگال

    پورب دیس میں ڈگی باجی پھیلا سکھ کا حال دکھ کی آگنی کون بجھائے سوکھ گئے سب تال جن ہاتھوں میں موتی رو لے آج وہی کنگال آج وہی کنگال بھوکا ہے بنگال رے ساتھی بھوکا ہے بنگال پیٹھ سے اپنے پیٹ لگائے لاکھوں الٹے کھاٹ بھیک منگائی سے تھک تھک کر اترے موت کے گھاٹ جین مرن کے ڈانڈے ملائے بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    جمالیات

    جمالیات کا نقاد جتنا حیراں ہے وہ باب حسن میں بھی اتنا ہی پریشاں ہے جمالیات میں کیا ہے جو خود نہیں فن میں جمالیات کا محور نشاۃ دوراں ہے جمالیات کو فرہنگ میں کرو نہ تلاش جمالیات میں زلف سخن کی افشاں ہے جمالیات کو اسلوب میں شمار کرو جمالیات میں ہر فرد اک دبستاں ہے جمالیات تغیر پذیر ...

    مزید پڑھیے

    سوکھے ہوئے بیلے

    تم نے سوکھے ہوئے بیلے بھی کبھی سونگھے ہیں ان کو مسلا نہ کرو کتنی آزردہ مگر بھینی مہک دیتے ہیں ان کو پھینکا نہ کرو گرد آلود بجھے چہروں کو سمجھا بھی کرو صرف دیکھا نہ کرو ہاتھ کے چھالوں کا گٹھوں کا مداوا بھی کرو صرف چھیڑا نہ کرو تم نے سوکھے ہوئے بیلے بھی کبھی سونگھے ہیں

    مزید پڑھیے

    ماں

    کس نے ان آہنی دروازوں کے پٹ کھول دئیے کس نے خوں خوار درندوں کو یہاں چھوڑ دیا کس نے آنچل پہ مرے ڈال دئیے انگارے ٹھیک سے کٹنے بھی نہ پایا تھا طوق گردن ابھی تو صدیوں کا پامال تھا میرا خرمن اس پہ ان وحشی لیٹروں نے سیہ کاروں نے میرے ارمانوں کو تاراج کیا لوٹ لیا میرے معصوموں کو بے خانہ ...

    مزید پڑھیے

    دہلی

    ہماری مجلس شوریٰ کے اونچے اونچے محل نظر جھکائے جمود عمل سے سر بوجھل وہ بے بسی کہ ذرا آگے بڑھ نہیں سکتے کتاب وقت کی تحریر پڑھ نہیں سکتے بھڑک رہے ہیں نگاہوں کے سامنے شعلے زباں نہ منہ میں ہو جس کے وہ کس طرح بولے یہ شہر دلی بہشت نظر جو تھا کل تک بنا ہوا ہے جہنم زمیں سے تا بہ ...

    مزید پڑھیے

    خونی قلعہ

    بہت ہی سخت بہت ہی طویل ہے یہ گھڑی اس عہد قہقری کا ہر قدم ہے ایک صدی یہ عہد جس پہ کئی نسلوں کی ہے گرد پڑی یہ پیر زال یہ قلعہ کنار آب رواں بھڑکتے شعلوں کے مانند جس کا ہر گنبد یہ کنگرے ہیں کہ ہیں بھٹیوں کے انگارے جلا کے رکھ دیئے جن کی تپش نے لاکھوں مکاں یہ ہے علامت فسطائیت گراؤ ...

    مزید پڑھیے

    سفر ناتمام

    زندگی کون سی منزل پہ رکی ہے آ کر آگے چلتی بھی نہیں راہ بدلتی بھی نہیں سست رفتار ہے یہ دور عبوری کتنا سخت و بے جان ہے وہ پیکر نوری کتنا چاند اک خواب جو تھا شہر امید تہہ آب جو تھا حسن کے ماتھے کا ننھا ٹیکا پائے آدم کے تلے آتے ہی اترے چہرے کی طرح ہو گیا کتنا پھیکا ہم جنوں کیش و طرح دار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2