کوئی مجبوریاں گنوا رہا ہے
کوئی مجبوریاں گنوا رہا ہے مجھے تو خوب ہنسنا آ رہا ہے اداسی کر رہی ہے رقص ہجرت ہمیشہ کے لیے وہ جا رہا ہے کوئی عورت ابھی گھر چھوڑ دے گی کوئی جنگل سے واپس آ رہا ہے کبھی ہنستے ہوئے جو کہہ دیا تھا مرا وہ شعر مجھ کو کھا رہا ہے گلے میں پڑ چکی رسی کسی کے کنوئیں میں کوئی مرنے جا رہا ہے