دنیا سے تب ڈر لگتا ہے

دنیا سے تب ڈر لگتا ہے
بیٹی کو جب پر لگتا ہے


اندر کا تو صوفی جانے
پر اچھا پیکر لگتا ہے


تم نے تو گل توڑ لئے
مجھ کو چھوتے ڈر لگتا ہے


صحرا سے انجان لگو ہو
تم کو یہ در گھر لگتا ہے


میں نے اس کو روتے دیکھا
جو تجھ کو پتھر لگتا ہے


تم نے حال تو پوچھا ہے پر
مجھ کو کہتے ڈر لگتا ہے