لکیر کھینچنا دیوار مت بنا لینا

لکیر کھینچنا دیوار مت بنا لینا
تم اختلاف کو آزار مت بنا لینا


بہ نام داد سخن یہ جو شور برپا ہے
اسے کلام کا معیار مت بنا لینا


کہانی سنتے رہو شوق سے مگر خود کو
کسی کہانی کا کردار مت بنا لینا


تمہارے اشکوں کی گویائی سے میں ڈرتا ہوں
انہیں وسیلۂ اظہار مت بنا لینا


محبتوں کے سفر میں یقیں تو لازم ہے
کسی کے وعدے کو پتوار مت بنا لینا


وصال سے ہی نکلتے ہیں ہجر کے موسم
گلوں کی شاخ کو تلوار مت بنا لینا


حویلیوں میں جو باقی شرافتیں ہیں ابھی
اب ان کو زینت بازار مت بنا لینا


یہ شہرتوں کی طلب ٹھیک ہے مگر طارقؔ
تم اپنی ذات کو اخبار مت بنا لینا