پلا رہا ہے زمیں کو یہاں لہو کوئی اور

پلا رہا ہے زمیں کو یہاں لہو کوئی اور
مگر ہیں پھول کسی کے ہے سرخ رو کوئی اور


تری طلب تھی سو ہم دار تک چلے آئے
اب آرزو کوئی باقی نہ جستجو کوئی اور


یہ اتفاق نہیں ہے کہ قتل ہو جائے
تری کہانی میں مجھ سا ہی ہو بہ ہو کوئی اور


ہمیشہ بنتی ہوئی بات کو بگاڑتے ہیں
کبھی کبھی تو میں خود ہی کبھو کبھو کوئی اور


کمال وحدت و کثرت میں روز دیکھتا ہوں
کہ تو ہی تو مرے اندر ہے چار سو کوئی اور


میں اپنے آپ سے خود جیتتا ہوں ہارتا ہوں
نہیں ہے میرے علاوہ مرا عدو کوئی اور


یہ شاعری میں ہے یکتا مخالفت میں وہ طاق
نہ اور کوئی یگانہؔ نہ لکھنؤ کوئی اور


جہان حاصل کن ٹھیک ہے مگر طارقؔ
مجھے بنانی ہے دنیائے رنگ و بو کوئی اور