Tabinda Sahar Abidi

تابندہ سحر عابدی

تابندہ سحر عابدی کی غزل

    سنو مرا خیال ہے

    سنو مرا خیال ہے یہ زندگی وبال ہے عجیب بے رخی سی ہے بڑا خراب حال ہے نہ گفتگو میں شوخیاں نہ سر رہا نہ تال ہے کبھی خدا کبھی صنم یہ کیسا گول مال ہے محبتوں کی آڑ میں ہوس کا ایک جال ہے بہار ہے گریز پا دلوں کا خستہ حال ہے گنوا دیا ہے سوز دل کہ پتھروں سا حال ہے زمانہ بے مثال تھا زمانہ ...

    مزید پڑھیے

    عشق قصداً کیا نہیں جاتا

    عشق قصداً کیا نہیں جاتا دل بھی قصداً دیا نہیں جاتا ہم نے آب حیات جانا تھا یہ ہلاہل پیا نہیں جاتا جسم زنداں میں روح قیدی ہے اس گھٹن میں جیا نہیں جاتا سانس لینے میں بھی تھکن ہے اب زخم دل اب سیا نہیں جاتا ہے گلا دل خراش چیخوں سے ماتم دل کیا نہیں جاتا کیسے لفظوں میں غم نظر ...

    مزید پڑھیے

    وقت کی دل لگی عروج پہ تھی

    وقت کی دل لگی عروج پہ تھی رات بھر شاعری عروج پہ تھی رات بھر فکر نے لہو تھوکا اور مری بیکلی عروج پہ تھی زخم سارے ہی نوچ ڈالے تھے وحشت دل مری عروج پہ تھی عکس ان کا نکھر کے آ بیٹھا اور پھر شاعری عروج پہ تھی شور تھا رات بھر بہت مجھ میں رات بھر خامشی عروج پہ تھی سحرؔ آنکھوں سے نیند ...

    مزید پڑھیے

    تختیاں سب اتار دی گئی ہیں

    تختیاں سب اتار دی گئی ہیں مرے گھر کا کہیں پتہ ہی نہیں ریگ بریاں پہ چل کے آئے ہیں پاؤں میں کوئی آبلہ ہی نہیں زخم دل کو تلاش مرہم تھی اور مرہم کہیں ملا ہی نہیں ہم نے دستک تو دی بہت لیکن پھر کوئی در کبھی کھلا ہی نہیں زندگی سے کبھی بنی نہ مری موت پر اختیار تھا ہی نہیں دھوپ بھی قہر ...

    مزید پڑھیے