عشق قصداً کیا نہیں جاتا
عشق قصداً کیا نہیں جاتا
دل بھی قصداً دیا نہیں جاتا
ہم نے آب حیات جانا تھا
یہ ہلاہل پیا نہیں جاتا
جسم زنداں میں روح قیدی ہے
اس گھٹن میں جیا نہیں جاتا
سانس لینے میں بھی تھکن ہے اب
زخم دل اب سیا نہیں جاتا
ہے گلا دل خراش چیخوں سے
ماتم دل کیا نہیں جاتا
کیسے لفظوں میں غم نظر آئے
خاکۂ غم لکھا نہیں جاتا
سحرؔ آنکھوں میں ہے وہ طغیانی
یہ سمندر پیا نہیں جاتا