تختیاں سب اتار دی گئی ہیں
تختیاں سب اتار دی گئی ہیں
مرے گھر کا کہیں پتہ ہی نہیں
ریگ بریاں پہ چل کے آئے ہیں
پاؤں میں کوئی آبلہ ہی نہیں
زخم دل کو تلاش مرہم تھی
اور مرہم کہیں ملا ہی نہیں
ہم نے دستک تو دی بہت لیکن
پھر کوئی در کبھی کھلا ہی نہیں
زندگی سے کبھی بنی نہ مری
موت پر اختیار تھا ہی نہیں
دھوپ بھی قہر بن کے برسی اور
سائباں ریت سے بنا ہی نہیں