Syeda Nafis Bano shama

سیدہ نفیس بانو شمع

سیدہ نفیس بانو شمع کی غزل

    جسم و جاں سلگتے ہیں بارشوں کا موسم ہے

    جسم و جاں سلگتے ہیں بارشوں کا موسم ہے اب تو لوٹ کر آ جا چاہتوں کا موسم ہے میرے خشک ہونٹوں پر قہقہے تو ہیں لیکن میری روح کے اندر سسکیوں کا موسم ہے خواب اور نیندوں کا ختم ہو گیا رشتہ مدتوں سے آنکھوں میں رت جگوں کا موسم ہے تھا مرے خیالوں میں گلشن اک تمنا کا مجھ کو یہ گماں گزرا ...

    مزید پڑھیے

    کاش ایسی بھی کوئی ساعت ہو

    کاش ایسی بھی کوئی ساعت ہو روبرو آپ ہی کی صورت ہو سوچتی ہوں تو دل دھڑکتا ہے تم مرے جسم کی حرارت ہو کتنے سجدوں کا قرض ہے مجھ پر سر جھکا لوں اگر اجازت ہو نیند آنکھوں میں اس لیے آئی ان کے آنے کی کب بشارت ہو مجھ کو بھیجا گیا ہے یہ کہہ کر تم مرے عشق کی امانت ہو ہم بھی کر لیں نماز کی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ میں آ کر ٹھہر گیا کوئی

    مجھ میں آ کر ٹھہر گیا کوئی حسن دل میں اتر گیا کوئی کیسی دی یہ مجھے کتاب عشق پڑھتے پڑھتے بکھر گیا کوئی آج خوشبو بھرے گلابوں سے میرے دامن کو بھر گیا کوئی اپنا اپنا تھا آئنہ سب کا جانے کس میں سنور گیا کوئی حال دل اس نے آج کیا پوچھا جیسے دریا ٹھہر گیا کوئی لے کے کاندھوں پہ اپنے ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کی حقیقت بھی بتا کیوں نہیں دیتے

    خوابوں کی حقیقت بھی بتا کیوں نہیں دیتے وہ ریت کا گھر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے اب ارض و سما میں تو ٹھکانہ نہیں میرا تم گرد کے مانند اڑا کیوں نہیں دیتے عالم میں لیے پھرتے ہو تم اپنی تجلی ہم جیسے چراغوں کو ضیا کیوں نہیں دیتے ایجاد کیا کرتے ہو تم غم کے کھلونے تم دل بھی کوئی اور نیا ...

    مزید پڑھیے

    خود سے لپٹ کے رو لیں بہت مسکرا لیے

    خود سے لپٹ کے رو لیں بہت مسکرا لیے خوشیوں سے آج درد کے پہلو نکالئے اس نے تری نگاہ سے کیا راز پا لیے خود اپنے دل میں اس نے ٹھکانے بنا لیے دامن میں تو گرے تھے کئی پھول بھی مگر پلکوں سے چن کے ہم نے ترے غم اٹھا لیے اب تم نہ کہہ سکو گے کہ ہم سرخ رو نہیں اپنے لہو میں آج تو ہم بھی نہا ...

    مزید پڑھیے

    منزل ملے نہ کوئی بھی رستہ دکھائی دے

    منزل ملے نہ کوئی بھی رستہ دکھائی دے دنیا فقط یہ کھیل تماشہ دکھائی دے رشتوں کا اک ہجوم تھا میں ڈھونڈھتی رہی حسرت لیے ہوئے کوئی اپنا دکھائی دے مجھ کو مٹا دے اس طرح دنیا سے اے خدا تاریخ میں بھی کوئی نہ مجھ سا دکھائی دے اس نے جلایا میرے نشیمن کو پھر کہا حد نگاہ تک تجھے صحرا دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بتلائے ماجرا کیا ہے

    کوئی بتلائے ماجرا کیا ہے روز و شب کا یہ سلسلہ کیا ہے سارے عالم میں گھوم کر دیکھا میرے محبوب کے سوا کیا ہے ابتدا کی خبر نہیں مجھ کو کیا بتاؤں کہ انتہا کیا ہے آگ پھیلے تو دور تک جائے لو ہے کیا چیز اور دیا کیا ہے بند کر دے کفن فروشی کو مردہ جسموں پہ اب رہا کیا ہے عقل معذور ہے محبت ...

    مزید پڑھیے

    درد سینے میں کہیں چیخ رہا ہو جیسے

    درد سینے میں کہیں چیخ رہا ہو جیسے تیری جانب سے کوئی تیر چلا ہو جیسے میرے اشکوں کے سمندر میں کوئی تاج محل دھیرے دھیرے سے کہیں ڈوب رہا ہو جیسے عمر گزری مگر احساس یہی رہتا ہے وہ ابھی اٹھ کے مرے گھر سے گیا ہو جیسے تیرے ہر نشتری جملے بھی لگے ہیں پیارے تیرے دشنام کی تاثیر جدا ہو ...

    مزید پڑھیے

    یہ فنا میری بقا ہو جیسے

    یہ فنا میری بقا ہو جیسے تو ہی چہرے پہ لکھا ہو جیسے تیرے ہونٹوں پہ تبسم ایسا پھول صحرا میں کھلا ہو جیسے یوں پکارا ہے کسی نے مجھ کو نام تیرا ہی لیا ہو جیسے اس نے پھیری جو نگاہیں تو لگا شیشہ پتھر پہ گرا ہو جیسے ہر طرف لمس ہے زندہ اس کا گھر میں صدیوں وہ رہا ہو جیسے زہر محبوب کے ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو ملتا تھا کبھی مجھ سے بہاروں کی طرح

    وہ جو ملتا تھا کبھی مجھ سے بہاروں کی طرح آج چبھتا ہے نگاہوں میں وہ خاروں کی طرح وہ بھی کیا شخص ہے جو قصر تصور میں مجھے روز آراستہ کرتا ہے مزاروں کی طرح ڈوبنے ہی نہیں دیتا کبھی کشتی میری اب بھی وہ سامنے رہتا ہے کناروں کی طرح لاکھ مہتاب مری زیست میں آئے لیکن درمیاں تجھ کو بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2