خوابوں کی حقیقت بھی بتا کیوں نہیں دیتے

خوابوں کی حقیقت بھی بتا کیوں نہیں دیتے
وہ ریت کا گھر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے


اب ارض و سما میں تو ٹھکانہ نہیں میرا
تم گرد کے مانند اڑا کیوں نہیں دیتے


عالم میں لیے پھرتے ہو تم اپنی تجلی
ہم جیسے چراغوں کو ضیا کیوں نہیں دیتے


ایجاد کیا کرتے ہو تم غم کے کھلونے
تم دل بھی کوئی اور نیا کیوں نہیں دیتے


تم ڈھونڈتے پھرتے ہو مسیحائی کا مرہم
زخموں کو سلیقے سے سجا کیوں نہیں دیتے


رونے کا سبب پوچھ نہ لے مجھ سے زمانہ
آنسو مری آنکھوں کے چھپا کیوں نہیں دیتے


یہ شمعؔ کھٹکتی ہے اگر خار کی صورت
نظروں سے اسے اپنی گرا کیوں نہیں دیتے