یہ فنا میری بقا ہو جیسے

یہ فنا میری بقا ہو جیسے
تو ہی چہرے پہ لکھا ہو جیسے


تیرے ہونٹوں پہ تبسم ایسا
پھول صحرا میں کھلا ہو جیسے


یوں پکارا ہے کسی نے مجھ کو
نام تیرا ہی لیا ہو جیسے


اس نے پھیری جو نگاہیں تو لگا
شیشہ پتھر پہ گرا ہو جیسے


ہر طرف لمس ہے زندہ اس کا
گھر میں صدیوں وہ رہا ہو جیسے


زہر محبوب کے ہاتھوں پا کر
یوں پیا میں نے دوا ہو جیسے


وصل کی شام کا اک اک لمحہ
میری مٹھی میں دبا ہو جیسے