مجھ میں آ کر ٹھہر گیا کوئی

مجھ میں آ کر ٹھہر گیا کوئی
حسن دل میں اتر گیا کوئی


کیسی دی یہ مجھے کتاب عشق
پڑھتے پڑھتے بکھر گیا کوئی


آج خوشبو بھرے گلابوں سے
میرے دامن کو بھر گیا کوئی


اپنا اپنا تھا آئنہ سب کا
جانے کس میں سنور گیا کوئی


حال دل اس نے آج کیا پوچھا
جیسے دریا ٹھہر گیا کوئی


لے کے کاندھوں پہ اپنے پھرتی ہوں
میرے اندر ہی مر گیا کوئی


روشنی بھیک میں نہیں ملتی
اپنی جاں سے گزر گیا کوئی


اب نہ ہنستی ہوں اور نہ روتی ہوں
کیسا جادو سا کر گیا کوئی


راکھ کہتی تھی شمعؔ کی اڑ کر
ہائے وقت سحر گیا کوئی