Syed Niyaz Ali Niyaz

سید نیاز علی نیاز

  • 1947

سید نیاز علی نیاز کی غزل

    ہم پہ وہ گردش حالات نہیں ہے پھر بھی

    ہم پہ وہ گردش حالات نہیں ہے پھر بھی تم تو ملتے ہو ملاقات نہیں ہے پھر بھی آج بھی رکھتا ہے مدہوش وفاؤں کا خیال حالانکہ شدت جذبات نہیں ہے پھر بھی ایک مدت سے سنا ہے کہ زمانہ ہے خلاف غم کی روداد مری بات نہیں ہے پھر بھی شام سے میں بھی جلا رکھتا ہوں خوابوں کے چراغ میرے حصے میں کوئی رات ...

    مزید پڑھیے

    ہم وطن تھا آشنا تھا رات دن ملتا تھا وہ

    ہم وطن تھا آشنا تھا رات دن ملتا تھا وہ اس میں کچھ تھی ایسی باتیں اجنبی لگتا تھا وہ اب تبسم ریز آنکھوں میں نمی دل داغ داغ باتوں باتوں میں کسی دن گر کبھی کھلتا تھا وہ معترف ہیں محفلیں وہ محفلوں کی جان تھا لوگ کیا جانیں کہاں کس حال میں رہتا تھا وہ آج اس کی خیریت بھی پوچھتا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    پھول تو پھول ہیں کانٹوں پہ نظر ہے میری

    پھول تو پھول ہیں کانٹوں پہ نظر ہے میری ایک مدت سے بہاروں پہ نظر ہے میری عکس در عکس نظاروں پہ نظر ہے میری ڈوبتے چاند ستاروں پہ نظر ہے میری دیکھنا یہ تھا مجھے کون سہارا دے گا تم نے سمجھا کہ سہاروں پہ نظر ہے میری کیا بھروسہ ہے چراغوں کا جلیں یا نہ جلیں جھلملاتے ہوئے تاروں پہ نظر ...

    مزید پڑھیے

    شاخ سے پھول جدا کرتے ہو کیا کرتے ہو

    شاخ سے پھول جدا کرتے ہو کیا کرتے ہو پھر بہاروں کی دعا کرتے ہو کیا کرتے ہو جب یہ معلوم ہے ہر وقت دعا دیتے ہیں ایسے لوگوں سے وفا کرتے ہو کیا کرتے ہو یہ جو تلوار ہے مظلوم کو بخشی جاتی تم تو ظالم کو عطا کرتے ہو کیا کرتے ہو اس طرح بات کا مفہوم بدل جائے گا لفظ سے لفظ جدا کرتے ہو کیا ...

    مزید پڑھیے