Syed Ashoor Kazmi

سید عاشور کاظمی

سید عاشور کاظمی کی غزل

    ساقی اپنا رند بھی اپنے توڑ گیا پیمانے کون

    ساقی اپنا رند بھی اپنے توڑ گیا پیمانے کون مے خواروں میں نفرت پھیلی آیا تھا بہکانے کون گلشن جیسے پیاس کا صحرا مالی جیسے ہو صیاد ہرے بھرے اس باغ کو یارو روند گیا ہے جانے کون فصلیں بونے والے دہقاں پوچھیں تو کس سے پوچھیں بھوسہ چھوڑ کے کھلیانوں میں بیچ گیا ہے دانے کون نصف صدی کا ...

    مزید پڑھیے

    طوفان سے منجھدار سے ہٹ کر نہیں دیکھا

    طوفان سے منجھدار سے ہٹ کر نہیں دیکھا دیکھا بھی تو ساحل سے لپٹ کر نہیں دیکھا پتھر بھی تھے کانٹے بھی بہت راہ طلب میں پھر بھی کبھی اس راہ سے کٹ کر نہیں دیکھا کشکول محبت میں خزانے تھے وفا کے تو نے کبھی دامن سے لپٹ کر نہیں دیکھا معیار تمنا ترا پندار تکبر ہم نے بھی تو معیار سے ہٹ کر ...

    مزید پڑھیے

    مآل عشق و محبت سے آشنا تو نہیں

    مآل عشق و محبت سے آشنا تو نہیں کہیں یہ غم بھی تری طرح بے وفا تو نہیں سفینے والو چلو آج دل کی بات کہیں اٹھو خدا کے لئے ناخدا خدا تو نہیں یہ اور بات ہے ماحول سازگار نہ ہو شکستہ بربط احساس بے صدا تو نہیں بجا کہ میری تباہی میں ان کا ہاتھ نہیں مگر یہ گردش دوراں کا حوصلہ تو نہیں جمود ...

    مزید پڑھیے

    ستم گروں نے تراشا ہے اک بہانہ نیا

    ستم گروں نے تراشا ہے اک بہانہ نیا جلایا جائے گا پھر کوئی آشیانہ نیا وہی حکایت مجبوری بشر کہ جو تھی نہ کوئی دام نیا ہے نہ آب و دانہ نیا خدا نہیں ہو خدائی پہ اختیار تو ہے کسے مجال کہ اب ڈھونڈھے آستانہ نیا حریف موجۂ طوفاں ہے میری تشنہ لبی کوئی سنے تو ذرا ان سے شاخسانہ نیا سمندروں ...

    مزید پڑھیے

    کج کلاہی کو یقیں تھا گھٹ کے مر جائیں گے لوگ

    کج کلاہی کو یقیں تھا گھٹ کے مر جائیں گے لوگ ہم یہ کہتے تھے کہ سڑکوں پر نکل آئیں گے لوگ ظلمتوں کی تیغ نے کاٹا اجالے کا گلا بے حسی کا دور جب سوچیں گے پچھتائیں گے لوگ آج اپنی ذات سے سچ بولنا بھی جرم ہے کل سر محفل ہماری بات دہرائیں گے لوگ کٹ گئی زنجیر ظلمت صبح کے آثار ہیں تیغ کی ...

    مزید پڑھیے

    غم سہے رسوا ہوئے جذبات کی تحقیر کی

    غم سہے رسوا ہوئے جذبات کی تحقیر کی ہم نے چاہا آپ کو ہم نے بڑی تقصیر کی روزن زنداں سے در آئی ہے سورج کی کرن بن گئی ناقوس آزادی صدا زنجیر کی خون کے چھینٹے پڑے ہیں شیخ کی دستار پر شہر کی گلیوں سے آئی ہے صدا تکبیر کی ذات کے اندر تلاطم ذات کے باہر سکوت مصلحت کوشی نے کیسی شخصیت تعمیر ...

    مزید پڑھیے

    ظلم و جور کو کب تک مصلحت میں تولیں گے

    ظلم و جور کو کب تک مصلحت میں تولیں گے اس صدی کے دانشور کب زبان کھولیں گے راس آ گئی جن کو بھیک آب و دانے کی وہ طیور اب ہرگز بال و پر نہ کھولیں گے بے حسی کے جذبوں کو خون کی ضرورت ہے کب ضمیر جاگیں گے کب عوام بولیں گے اہل کبر و نخوت کی اپنی آستینوں میں وہ جو سانپ پلتے ہیں اور زہر ...

    مزید پڑھیے