Syed Ashoor Kazmi

سید عاشور کاظمی

سید عاشور کاظمی کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    ساقی اپنا رند بھی اپنے توڑ گیا پیمانے کون

    ساقی اپنا رند بھی اپنے توڑ گیا پیمانے کون مے خواروں میں نفرت پھیلی آیا تھا بہکانے کون گلشن جیسے پیاس کا صحرا مالی جیسے ہو صیاد ہرے بھرے اس باغ کو یارو روند گیا ہے جانے کون فصلیں بونے والے دہقاں پوچھیں تو کس سے پوچھیں بھوسہ چھوڑ کے کھلیانوں میں بیچ گیا ہے دانے کون نصف صدی کا ...

    مزید پڑھیے

    طوفان سے منجھدار سے ہٹ کر نہیں دیکھا

    طوفان سے منجھدار سے ہٹ کر نہیں دیکھا دیکھا بھی تو ساحل سے لپٹ کر نہیں دیکھا پتھر بھی تھے کانٹے بھی بہت راہ طلب میں پھر بھی کبھی اس راہ سے کٹ کر نہیں دیکھا کشکول محبت میں خزانے تھے وفا کے تو نے کبھی دامن سے لپٹ کر نہیں دیکھا معیار تمنا ترا پندار تکبر ہم نے بھی تو معیار سے ہٹ کر ...

    مزید پڑھیے

    مآل عشق و محبت سے آشنا تو نہیں

    مآل عشق و محبت سے آشنا تو نہیں کہیں یہ غم بھی تری طرح بے وفا تو نہیں سفینے والو چلو آج دل کی بات کہیں اٹھو خدا کے لئے ناخدا خدا تو نہیں یہ اور بات ہے ماحول سازگار نہ ہو شکستہ بربط احساس بے صدا تو نہیں بجا کہ میری تباہی میں ان کا ہاتھ نہیں مگر یہ گردش دوراں کا حوصلہ تو نہیں جمود ...

    مزید پڑھیے

    ستم گروں نے تراشا ہے اک بہانہ نیا

    ستم گروں نے تراشا ہے اک بہانہ نیا جلایا جائے گا پھر کوئی آشیانہ نیا وہی حکایت مجبوری بشر کہ جو تھی نہ کوئی دام نیا ہے نہ آب و دانہ نیا خدا نہیں ہو خدائی پہ اختیار تو ہے کسے مجال کہ اب ڈھونڈھے آستانہ نیا حریف موجۂ طوفاں ہے میری تشنہ لبی کوئی سنے تو ذرا ان سے شاخسانہ نیا سمندروں ...

    مزید پڑھیے

    کج کلاہی کو یقیں تھا گھٹ کے مر جائیں گے لوگ

    کج کلاہی کو یقیں تھا گھٹ کے مر جائیں گے لوگ ہم یہ کہتے تھے کہ سڑکوں پر نکل آئیں گے لوگ ظلمتوں کی تیغ نے کاٹا اجالے کا گلا بے حسی کا دور جب سوچیں گے پچھتائیں گے لوگ آج اپنی ذات سے سچ بولنا بھی جرم ہے کل سر محفل ہماری بات دہرائیں گے لوگ کٹ گئی زنجیر ظلمت صبح کے آثار ہیں تیغ کی ...

    مزید پڑھیے

تمام