سید احمد شمیم کی غزل

    قربتوں کے درمیاں بھی فاصلہ باقی رہا

    قربتوں کے درمیاں بھی فاصلہ باقی رہا ایک اثبات و نفی کا سلسلہ باقی رہا ہر دعائے مستحب کل کے لئے رکھ دی گئی اور ہونٹوں پر کسیلا ذائقہ باقی رہا پتھروں کی سب لکیریں دھیرے دھیرے مٹ گئیں نوک مژگاں سے مگر لکھا ہوا باقی رہا منزلوں کی سمت روز و شب یوں ہی چلتے رہے راستے کٹتے گئے اور ...

    مزید پڑھیے

    جب سفر کو میں نے تھاما تھا یہ اندھا راستہ

    جب سفر کو میں نے تھاما تھا یہ اندھا راستہ آج روتا ہے مگر قدموں سے لپٹا راستہ تیرتی پھرتی ہیں چاروں سمت رنگیں تتلیاں ٹیڑھا ٹیڑھا اونچا نیچا گیلا کچا راستہ کون سنتا تھا کسی کی کوئی کیا کہتا وہاں میرے کاندھے پہ سفر تھا میں نے پکڑا راستہ وہ جو گزرا تھا یہاں سے کیا پتہ لوٹے ...

    مزید پڑھیے

    زخم تازہ تھا تو گہرائی کا اندازہ نہ تھا

    زخم تازہ تھا تو گہرائی کا اندازہ نہ تھا اب گماں ہوتا ہے اس کو چاہنا اچھا نہ تھا میں کہ دست حال میں تھا حال سے بھی بے خبر پشت پر ماضی کی یادیں سامنے فردا نہ تھا وہ مری نس نس میں کیسے درد بن کر رہ گیا میرے اس کے درمیاں ایسا کوئی رشتہ نہ تھا چاند سا معصوم چہرہ آئنہ سا رو بہ رو روح کی ...

    مزید پڑھیے

    یہ جادوئے جمال کسی دیدہ ور سے پوچھ

    یہ جادوئے جمال کسی دیدہ ور سے پوچھ آئینہ کیا بتائے گا میری نظر سے پوچھ اظہار درد میری زباں سے نہ ہو سکا اے شوخ دل کا حال مری چشم تر سے پوچھ عہد بہار میں بھی گلابوں کے کیوں حرم مسمار ہو رہے ہیں نسیم سحر سے پوچھ وحشت میں بھی کیا ہوا کیا کیا نہیں ہوا کچھ اپنی رہ گزار سے کچھ سنگ در ...

    مزید پڑھیے

    پھول خوشبو شام ساون شغل پیمانہ چلے

    پھول خوشبو شام ساون شغل پیمانہ چلے جس کو چلنا ہے ہمارے ساتھ مے خانہ چلے یوں چلے لہرا کے جیسے موج بل کھائی ہوئی یا سحاب مست جیسے چال مستانہ چلے زلف سنبل پھول لب رخسار پر رنگ شفق جنبشیں آنکھوں کی پلکوں میں کہ پیمانہ چلے اس سے کہہ دو پتھروں کے بت میں ڈھل جائیں گے سب اب نہ یہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک جگ بیت گیا جھوم کے آئے بادل

    ایک جگ بیت گیا جھوم کے آئے بادل وہ سمندر ہی کہاں ہے جو اٹھائے بادل نہ کبھی ٹوٹ کے برسے نہ یہ مایوس کرے دور ہی دور سے آنکھوں لبھائے بادل رات آئی کہ کہیں آپ نے کھولے گیسو دوش پر شوخ ہواؤں کے جو آئے بادل یہ زمیں چیختی رہتی ہے کہ پانی پانی کوئی طوفاں کوئی سیلاب ہی لائے بادل میرے سر ...

    مزید پڑھیے

    وہ دشت تیرگی ہے کہ کوئی صدا نہ دے

    وہ دشت تیرگی ہے کہ کوئی صدا نہ دے سایہ بھی میرے جسم کا مجھ کو پتا نہ دے نا آگہی کی رات بھی کتنی لطیف تھی یہ آگہی کی دھوپ ہے چہرہ جلا نہ دے خوابوں کا اک لطیف سا ہے عکس ذہن پر باد سموم وقت اسے بھی مٹا نہ دے چشم غزال جھیل کا منظر حسین موت میری طرف نہ دیکھ مجھے یہ سزا نہ دے دل سے بھی ...

    مزید پڑھیے

    یہاں جو کچھ ہے حسن لا مکاں کے ماسوا کیا ہے

    یہاں جو کچھ ہے حسن لا مکاں کے ماسوا کیا ہے مگر جلوہ ہی جلوہ ہے تو میرا آئنہ کیا ہے تو ہی شہ رگ میں رہتا ہے تو ہی موج نفس میں ہے تو پھر بتلا کہ ماوتو میں اتنا فاصلہ کیا ہے مشام جاں میں کیسی خوشبوؤں کی آج بارش ہے چھپائے اپنے دامن میں خدا جانے صبا کیا ہے ہم ایسے سخت جانوں کا بہت مشکل ...

    مزید پڑھیے

    نفس نفس کی ملی ہے مجھے سزا کیسی

    نفس نفس کی ملی ہے مجھے سزا کیسی یہ ریت ریت بکھرتی ہوئی انا کیسی گزشتہ زخموں کے ٹانکے تمام ٹوٹ گئے کوئی بتائے کہ چلنے لگی ہوا کیسی سکوں ملے کسی لمحہ نہ یہ بکھر جائے عطا ہوئی ہے مجھے زندگی خدا کیسی کبھی کبھی وہ مجھے سن کے چونک اٹھے گا ہے جنگلوں میں بھٹکتی ہوئی صدا کیسی شمیمؔ آپ ...

    مزید پڑھیے

    جاگتے میں رات مجھ کو خواب دکھلایا گیا

    جاگتے میں رات مجھ کو خواب دکھلایا گیا بن کے شاخ گل مری آنکھوں میں لہرایا گیا جو مسک جائے ذرا سی ایک نوک حرف سے کیوں مجھے ایسا لباس جسم پہنایا گیا اپنے اپنے خوف گھر میں لوگ ہیں سہمے ہوئے دائرے سے کھینچ کر نقطے کو کیوں لایا گیا یہ مرا اپنا بدن ہے یا کھنڈر خوابوں کا ہے جانے کس کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3