Surender Pandit Soz

سریندر پنڈت سوز

سریندر پنڈت سوز کی غزل

    میں نے سوچا ہے کہ اب ترک تمنا کر لوں

    میں نے سوچا ہے کہ اب ترک تمنا کر لوں زندگی جیسے گزرتی ہے گوارا کر لوں لاکھ طوفان اٹھیں لاکھ کنارے ڈوبیں اپنی ٹوٹی ہوئی کشتی پہ بھروسا کر لوں ہوس شوق نہ تڑپائے نگاہ و دل کو تیری دنیا سے بہت دور بسیرا کر لوں بجھتے جاتے ہیں سر شام امیدوں کے چراغ کس کی یادوں سے دل و جاں میں اجالا کر ...

    مزید پڑھیے

    وہ پس مرگ نہ لاشے کو اٹھانے دے گا

    وہ پس مرگ نہ لاشے کو اٹھانے دے گا میری آغوش میں رہ رہ کے سرہانے دے گا تیری فطرت تو وہی خانہ بدوشی ٹھہری زندگی تجھ کو بھلا کون ٹھکانے دے گا خط پرانے ہی سہی آج دوبارہ پڑھ لیں تو کہاں وقت ہمیں اگلے زمانے دے گا پہلی سی غوطہ زنی بس میں نہیں ہے اس کے اب مقدر نہ اسے کھل کے نہانے دے ...

    مزید پڑھیے

    اس سلگتے شہر میں سائے کہاں

    اس سلگتے شہر میں سائے کہاں برف کی سل دھوپ میں جائے کہاں آبلہ پائی ہے جلتی ریت ہے اس زمیں کے سر پہ اب سائے کہاں وہ پلٹ آئے گا دنیا دیکھ کر کوئی اس کی کھوج میں جائے کہاں خون ابلتا ہے جہاں کھودو زمیں گھر کہو وہ شخص بنوائے کہاں تذکرے جس کے ہیں سارے شہر میں کوئی اس کو ہم سے ملوائے ...

    مزید پڑھیے

    اس سے بچھڑ کے دل کو منانے کی بات تھی

    اس سے بچھڑ کے دل کو منانے کی بات تھی کالے سمندروں میں نہانے کی بات تھی کیا کیجئے کہ ہم کو کوئی اور بھا گیا ویسے تو ایک عمر نبھانے کی بات تھی نس نس میں بس گیا تھا کوئی جوگیا بدن خوشبو بدن میں اس کے جگانے کی بات تھی لازم تھا اس سے ترک تعلق کہ اس کے ساتھ جو بات تھی وہ گزرے زمانے کی ...

    مزید پڑھیے

    اب نہ آئے گا کبھی روٹھ کے جانے والا

    اب نہ آئے گا کبھی روٹھ کے جانے والا عمر بھر خط وہی پڑھیے گا سرہانے والا وہ مراسم بھی نبھاتا ہے تو رسموں کی طرح آ گیا اس کو بھی دستور زمانے والا یہ جدا ہونے کی رت ہے نہ دکھاؤ جی کو ذکر چھیڑو نہ کوئی اگلے زمانے والا میں نے یادوں کو کفن دے کے سلا رکھا ہے کون آئے گا یہاں ملنے ملانے ...

    مزید پڑھیے

    اٹھو یہاں سے کہیں اور جا کے سو جاؤ

    اٹھو یہاں سے کہیں اور جا کے سو جاؤ یہاں کے شور سے بھاگو کہیں بھی کھو جاؤ لہو لہو نہ کرو زندگی کے چہرے کو ستم گروں کی نوازش سے دور ہو جاؤ کہاں پھرو گے غبار سفر کو ساتھ لیے متاع درد کو دامن میں لے کے سو جاؤ کرم کی بھیک کہاں قاتلوں کی بستی میں بدن کا خول اٹھاؤ لحد میں سو جاؤ یہ سایہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ اپنی ذات میں گم تھا نڈھال ایسا تھا

    وہ اپنی ذات میں گم تھا نڈھال ایسا تھا مزاج پوچھنے والے کا حال ایسا تھا کوئی چراغ سا چہرہ ادھر نہیں آیا میں نا مراد تھا یارو کہ سال ایسا تھا دبا دیا تھا کسی ہاتھ کو اندھیرے میں وہ جان جائے گا میرا خیال ایسا تھا میں گرد راہ سفر تھا کہاں تھا نقش مرا الگ الگ تھا میں سب سے کمال ایسا ...

    مزید پڑھیے

    یوں تیز آندھیوں کی نہ زد پر رہا کرو

    یوں تیز آندھیوں کی نہ زد پر رہا کرو چلتے مسافروں سے نہ دل کی کہا کرو وہ کم سنی کی شاخ پہ کھلتا گلاب ہے موج صبا کی طرح اسے تم چھوا کرو آوارگی کی دھوپ میں جلنا بجا سہی کوئی تو شام اپنے بھی گھر پر رہا کرو احساس اس فقیر کا فرقت سے چور ہے آئے اگر وہ در پہ تو ہنس کر ملا کرو خوشبو تو ...

    مزید پڑھیے