یوں تیز آندھیوں کی نہ زد پر رہا کرو

یوں تیز آندھیوں کی نہ زد پر رہا کرو
چلتے مسافروں سے نہ دل کی کہا کرو


وہ کم سنی کی شاخ پہ کھلتا گلاب ہے
موج صبا کی طرح اسے تم چھوا کرو


آوارگی کی دھوپ میں جلنا بجا سہی
کوئی تو شام اپنے بھی گھر پر رہا کرو


احساس اس فقیر کا فرقت سے چور ہے
آئے اگر وہ در پہ تو ہنس کر ملا کرو


خوشبو تو سارے شہر میں اس کے بدن کی ہے
یوں ہی نہ عطر کان میں رکھ کر پھرا کرو


جو اس قدر خلوص سے ملتا ہے ان دنوں
بن جائے میری زندگی یہ بھی دعا کرو


آیا ہے خاک چھان کے دشت ہوس کی وہ
بہتر یہی ہے اس سے نہ کوئی گلہ کرو