وہ اپنی ذات میں گم تھا نڈھال ایسا تھا

وہ اپنی ذات میں گم تھا نڈھال ایسا تھا
مزاج پوچھنے والے کا حال ایسا تھا


کوئی چراغ سا چہرہ ادھر نہیں آیا
میں نا مراد تھا یارو کہ سال ایسا تھا


دبا دیا تھا کسی ہاتھ کو اندھیرے میں
وہ جان جائے گا میرا خیال ایسا تھا


میں گرد راہ سفر تھا کہاں تھا نقش مرا
الگ الگ تھا میں سب سے کمال ایسا تھا


وہ زہر قرب مجھے دے کے پھونک ڈالے گا
اسے غرور تھا اس کا جلال ایسا تھا


دعا سلام نہ ہوگی نگر بھی چھوڑوں گا
وہ ٹالتا بھی تو کیسے سوال ایسا تھا