اس سلگتے شہر میں سائے کہاں

اس سلگتے شہر میں سائے کہاں
برف کی سل دھوپ میں جائے کہاں


آبلہ پائی ہے جلتی ریت ہے
اس زمیں کے سر پہ اب سائے کہاں


وہ پلٹ آئے گا دنیا دیکھ کر
کوئی اس کی کھوج میں جائے کہاں


خون ابلتا ہے جہاں کھودو زمیں
گھر کہو وہ شخص بنوائے کہاں


تذکرے جس کے ہیں سارے شہر میں
کوئی اس کو ہم سے ملوائے کہاں


جو کھلے موسم میں بھی ملتا نہیں
بارشوں میں میرے گھر آئے کہاں


جو ہوا اپنی انا سے خود ہلاک
قتل گاہوں سے وہ گھبرائے کہاں