سہیل ثانی کی غزل

    سفر میں کیوں نہ سفینوں کے بادبان کھلے

    سفر میں کیوں نہ سفینوں کے بادبان کھلے مجھے بتانا اگر تم پہ داستان کھلے تلاش ماہ و کواکب سے کیا ملے گا تجھے تو خاک اوڑھ کہ تجھ پر یہ خاکدان کھلے یہ کس مقام پہ ٹوٹا ہے ان کہی کا فسوں ہمارے زخم ہواؤں کے درمیان کھلے کسی کے نام پہ تڑپی ہیں ڈوبتی نبضیں غم نہاں کے دم آخریں نشان ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو سیلاب جا رہا ہے میاں

    یہ جو سیلاب جا رہا ہے میاں آنکھ سے خواب جا رہا ہے میاں آؤ جی بھر کے دیکھ لیں اس کو ایک نایاب جا رہا ہے میاں لوگ پر نوچنے لگے اس کے یعنی سرخاب جا رہا ہے میاں دھڑکنیں روک دی ہیں اشکوں نے دل تہہ آب جا رہا ہے میاں ہالۂ نور سا ہے نقش قدم کوئی مہتاب جا رہا ہے میاں

    مزید پڑھیے

    کہیں بھی با خدا کوئی نہیں ہے

    کہیں بھی با خدا کوئی نہیں ہے یقیناً آپ سا کوئی نہیں ہے وہاں موجود ہوں خود سر بہ سر میں جہاں تک دیکھتا کوئی نہیں ہے کمال فکر کا دعویٰ ہے سب کو اگرچہ سوچتا کوئی نہیں ہے میں کیسے ہاتھ تجھ کو چھوڑنے دوں مرا تیرے سوا کوئی نہیں ہے میں ایسے شہر میں مارا گیا ہوں جہاں پہ خوں بہا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں رو کر بتانا چاہتے ہیں

    تمہیں رو کر بتانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی مسکرانا چاہتے ہیں مثال طفل ہیں اہل سیاست یہ ہر اک چیز کھانا چاہتے ہیں صدا کافی نہیں ہے کوچواں کی یہ گھوڑے تازیانہ چاہتے ہیں یہ تینوں وقت اپنے پاس رکھو کہ ہم چوتھا زمانہ چاہتے ہیں ہمیں وہ آخری دیوار گریہ جسے سارے گرانا چاہتے ہیں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    وہ تو ہر چاہنے والے پہ فدا لگتا ہے

    وہ تو ہر چاہنے والے پہ فدا لگتا ہے جانے کس کس کا ہے جو مجھ کو مرا لگتا ہے اس نے قدموں میں سجا رکھے ہیں امید کے پھول دیکھنے والوں کو جو آبلہ پا لگتا ہے اب نہ سن پائے گا وہ میری صدائیں شاید وہ کہیں دور بہت دور گیا لگتا ہے پر جو پھیلاتا نہیں خوف سے اپنے پنچھی تازہ تازہ کسی پنجرے سے ...

    مزید پڑھیے

    روک پائے نہ مکیں گھر سے گزرتا پانی

    روک پائے نہ مکیں گھر سے گزرتا پانی آنکھ سے بہنے لگا سر سے گزرتا پانی میرے تعمیر کیے ریت کے ان محلوں پر مسکرایا ہے برابر سے گزرتا پانی حسن شفاف ہے ایسا کہ نظر آتا ہے پیکر ماہ منور سے گزرتا پانی سبزہ و گل سے گریزاں ہے طبیعت جس کی میں ہوں اس دشت ستم گر سے گزرتا پانی کوئی دریا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی یاد میں شمعیں جلانا بھول جاتا ہے

    کسی کی یاد میں شمعیں جلانا بھول جاتا ہے کوئی کتنا ہی پیارا ہو زمانہ بھول جاتا ہے کسی دن بے نیازی اس کی مجھ کو مار ڈالے گی خفا کرتا ہے وہ لیکن منانا بھول جاتا ہے رخ روشن پہ زلفوں کا یہ گرنا جان لیوا ہے اور اس پر یہ ستم دلبر ہٹانا بھول جاتا ہے اگر ہے بھولنا مجھ کو کسی سے پیار کر ...

    مزید پڑھیے