سفر میں کیوں نہ سفینوں کے بادبان کھلے
سفر میں کیوں نہ سفینوں کے بادبان کھلے مجھے بتانا اگر تم پہ داستان کھلے تلاش ماہ و کواکب سے کیا ملے گا تجھے تو خاک اوڑھ کہ تجھ پر یہ خاکدان کھلے یہ کس مقام پہ ٹوٹا ہے ان کہی کا فسوں ہمارے زخم ہواؤں کے درمیان کھلے کسی کے نام پہ تڑپی ہیں ڈوبتی نبضیں غم نہاں کے دم آخریں نشان ...