روک پائے نہ مکیں گھر سے گزرتا پانی

روک پائے نہ مکیں گھر سے گزرتا پانی
آنکھ سے بہنے لگا سر سے گزرتا پانی


میرے تعمیر کیے ریت کے ان محلوں پر
مسکرایا ہے برابر سے گزرتا پانی


حسن شفاف ہے ایسا کہ نظر آتا ہے
پیکر ماہ منور سے گزرتا پانی


سبزہ و گل سے گریزاں ہے طبیعت جس کی
میں ہوں اس دشت ستم گر سے گزرتا پانی


کوئی دریا ہے جو دریا ہے ابھی تک ثانیؔ
کتنا شیریں ہے سمندر سے گزرتا پانی