کہیں بھی با خدا کوئی نہیں ہے

کہیں بھی با خدا کوئی نہیں ہے
یقیناً آپ سا کوئی نہیں ہے


وہاں موجود ہوں خود سر بہ سر میں
جہاں تک دیکھتا کوئی نہیں ہے


کمال فکر کا دعویٰ ہے سب کو
اگرچہ سوچتا کوئی نہیں ہے


میں کیسے ہاتھ تجھ کو چھوڑنے دوں
مرا تیرے سوا کوئی نہیں ہے


میں ایسے شہر میں مارا گیا ہوں
جہاں پہ خوں بہا کوئی نہیں ہے


میں حاضر ہوں مجھے اپنا بنا لیں
سنا ہے آپ کا کوئی نہیں ہے


جو پوچھا ہے کوئی گھر میں تو ثانیؔ
کسی نے دی صدا کوئی نہیں ہے