Subhan Anjum

سبحان انجم

  • 1946

سبحان انجم کی غزل

    کوئی پیاسا نہ رہے آج وہ کہہ کر نکلا

    کوئی پیاسا نہ رہے آج وہ کہہ کر نکلا ابر بن کر مری بستی سے سمندر نکلا لوگ بادل کی طرح راہ میں آئے ورنہ میں تو سورج کی طرح گھر سے برابر نکلا جس نے چومے تھے مرے پاؤں بڑے پیار کے ساتھ خواب ٹوٹا تو وہی آگ کا بستر نکلا عمر بھر ریت کے ساگر میں چلائی کشتی اور ڈوبا تو خلاؤں کے بھی اوپر ...

    مزید پڑھیے

    ہم حق پہ ہیں تو کہئے سر دار کون ہے

    ہم حق پہ ہیں تو کہئے سر دار کون ہے احباب پارسا ہیں گناہ گار کون ہے تم ہی بتاؤ دوست وفادار کون ہے مشکل میں آج اپنا مددگار کون ہے پتھراؤ ہو رہا ہے مسلسل مکان پر اب کیا بتائیں ہم پس دیوار کون ہے سورج کو ساتھ لے کے بھی آئیں تو کیا ملے کمرے ہیں سب کے بند پرستار کون ہے انجمؔ ہمارے پاس ...

    مزید پڑھیے

    گرم ہے عشق کا بازار چلو دیکھیں گے

    گرم ہے عشق کا بازار چلو دیکھیں گے کون ہے اپنا خریدار چلو دیکھیں گے کون ہے قوم کا سردار چلو دیکھیں گے وہ بھی کس کا ہے طلب گار چلو دیکھیں گے سبز باغوں کی زیارت تو بہت اچھی ہے کون ہمدرد ہے سرکار چلو دیکھیں گے ہم نے کلیوں کو جہاں خون دیا تھا پہلے کس مصیبت میں ہے گلزار چلو دیکھیں ...

    مزید پڑھیے

    کرم فرما تری یادوں کے لشکر ٹوٹ جاتے ہیں

    کرم فرما تری یادوں کے لشکر ٹوٹ جاتے ہیں نگاہوں میں جو رہتے ہیں وہ منظر ٹوٹ جاتے ہیں خوشی کو بانٹنے والے بھی اکثر ٹوٹ جاتے ہیں حدود ضبط سے آگے سمندر ٹوٹ جاتے ہیں اگر خاموش رہتے ہیں تو دل پر بوجھ رہتا ہے اگر ہم بولتے ہیں کچھ تو کہہ کر ٹوٹ جاتے ہیں محبت ہو تو رشتے اور بھی مضبوط ہو ...

    مزید پڑھیے