کوئی پیاسا نہ رہے آج وہ کہہ کر نکلا

کوئی پیاسا نہ رہے آج وہ کہہ کر نکلا
ابر بن کر مری بستی سے سمندر نکلا


لوگ بادل کی طرح راہ میں آئے ورنہ
میں تو سورج کی طرح گھر سے برابر نکلا


جس نے چومے تھے مرے پاؤں بڑے پیار کے ساتھ
خواب ٹوٹا تو وہی آگ کا بستر نکلا


عمر بھر ریت کے ساگر میں چلائی کشتی
اور ڈوبا تو خلاؤں کے بھی اوپر نکلا


کیا تعلق تھا کسی شہر کے لوگوں سے مگر
جو بھی انجمؔ سے ملا آج وہ رو کر نکلا