کرم فرما تری یادوں کے لشکر ٹوٹ جاتے ہیں
کرم فرما تری یادوں کے لشکر ٹوٹ جاتے ہیں
نگاہوں میں جو رہتے ہیں وہ منظر ٹوٹ جاتے ہیں
خوشی کو بانٹنے والے بھی اکثر ٹوٹ جاتے ہیں
حدود ضبط سے آگے سمندر ٹوٹ جاتے ہیں
اگر خاموش رہتے ہیں تو دل پر بوجھ رہتا ہے
اگر ہم بولتے ہیں کچھ تو کہہ کر ٹوٹ جاتے ہیں
محبت ہو تو رشتے اور بھی مضبوط ہو جائیں
کوئی بجلی گرے دل پر تو پھر گھر ٹوٹ جاتے ہیں
عقیدت جن سے ہوتی ہے انہیں پوجا بھی جاتا ہے
جنہیں نسبت نہیں ملتی وہ پتھر ٹوٹ جاتے ہیں
تری قربت میں پلتے ہیں تری چاہت میں چلتے ہیں
تری فرقت میں ہم دل کے برابر ٹوٹ جاتے ہیں
وفا میں جینے والوں کی عجب ہے داستاں انجمؔ
کہیں وہ ڈوب جاتے ہیں کہیں پر ٹوٹ جاتے ہیں