امانت سونپ کر بنیاد بھی حشر آفریں رکھ دی

امانت سونپ کر بنیاد بھی حشر آفریں رکھ دی
جہاں سے ایک مٹھی خاک اٹھائی تھی وہیں رکھ دی


نہ آیا آہ آنسو پونچھنا بھی غم کے ماروں کو
نچوڑی بھی نہیں آنکھوں پہ یوں ہی آستیں رکھ دی


دھوئیں کی چادریں کیسی وہ شعلے اب کہاں ہمدم
ردائے صبر میں تہ کر کے آہ آتشیں رکھ دی


نماز اہل الفت بے نیاز دیر و کعبہ ہے
گواہی دی جہاں دل نے وہیں ہم نے جبیں رکھ دی


جہنم گل ہوا یہ کن گنہ گاروں کے آنسو تھے
ہر انگارے پر اک بنیاد فردوس بریں رکھ دی


ہنسی آئی ہے کیا کیا میرے ذوق آب دیدہ کو
نہ دامن سے تھمے آنسو تو اس نے آستیں رکھ دیں


سراجؔ ان کی نظر میں آج تھی تو کچھ حرارت سی
چھپا کے دل میں شاید کوئی چنگاری کہیں رکھ دی