Sidra Sahar Imran

سدرہ سحر عمران

سدرہ سحر عمران کی نظم

    سڑک چھاپ

    پولیو کے قطرے پینے سے بھکاریوں کی بندر بانٹ میں کیسے کمی آ سکتی ہے؟ جبکہ گداگروں کے روحانی پیشوا اشتہار دیتے ہیں کہ انہیں بغیر ہاتھ پاؤں والے لوگوں کی اشد ضرورت ہے اور مجھے ہنسی آتی ہے ان مر جانے والوں پر جو ویکسینوں میں بھر دیے گئے

    مزید پڑھیے

    نا خلف مزاج کی مصدقہ تسلیمات

    میرے بدن کی چار دیواری کے لئے کھنکتی ہوئی مٹی کم تھی اس لئے خدا نے آنکھوں میں کانچ بھر دیا اور جہنم کے لپکتے ہوئے شعلوں کی جلن لہو میں رکھ دی میرے ہاتھوں میں لق و دق صحراؤں کی رتیلی وحشت چبائے ہوئے عکس کی لکیریں بناتی رہتی ہے اور ذہن کے رستے ہوئے پتیلے میں دن بھر برداشت کا لاوا ...

    مزید پڑھیے

    ناکام مذاکرات

    لوگ ربر بینڈ کی طرح ہاتھوں پہ چڑھائے جا سکتے ہیں پہنے جا سکتے ہیں پیروں میں کاغذ چھوٹی چھوٹی گولیوں میں تبدیل کئے جا سکتے ہیں جنہیں جب چاہو دیوار پہ دے مارو ان کو کوڑے‌ دان میں پھینکا جا سکتا ہے جالے اور وحشت اتاری جا سکتی ہے کمروں کی اتنی بھیانک اور نوکیلی ہیں ان کی آوازیں جو ...

    مزید پڑھیے

    جنم کدے میں ناجائز آنکھیں

    میں ٹیڑھی پسلی کا گستاخ جنم ہوں جس کے حلقوں میں بد تہذیب چیخوں کا ہجوم بغیر اطلاع دئیے نقارۂ بے‌‌ اماں کا راگ الاپتا ہے پھونکتا ہے آنکھ آنکھ میں دھواں ادھ جلے تعلقات کا مجھے پتھریلے احساس کے پنگھوڑوں میں کھلایا گیا سکھائی گئی بے ترتیب زندگی کی بندر بانٹ قلاش لوگوں کے ...

    مزید پڑھیے

    صبر آزما

    ہم کہاں کے ایوب تھے؟ جو رزق کی تلاش میں نکلے حشرات کو ہمارے بدن کا پتا دے دیا گیا ہمیں اپنے آپ کا بوجھ گوارہ نہیں کسی کی گزر اوقات کا انحصار ہم پہ کیوں ہو؟

    مزید پڑھیے

    مردہ لوگوں کی تصویری نمائش

    جب مسجدوں اور امام بارگاہوں میں نقب لگائی جاتی تھی تو کئی بے رنگ دائرے سوالیہ نشان لئے ہمارے راستے میں آ کھڑے ہوتے کہ کلیساؤں اور مندروں کا نظام کون سے خدا کے پاس ہے جو امن کی فاختاؤں کو عبادت گاہ کے روشن دانوں میں بھیج دیتا ہے اسی سوال میں جوابی رنگ بھرنے کے لئے ہم نے لہو کو ...

    مزید پڑھیے

    جہنم سے پہلے جہنم

    گندم کی وہ بوریاں جو ہمارے حصے میں آئیں ان میں کہانیاں نہیں مرے ہوئے کردار بھرے ہوئے تھے ہم بہت مدت تک تلاشتے رہے اپنا جلایا گیا بدن مگر کوئی نقش مماثل نہیں تھا ہمارے خال و خد سے یا شاید ہمارا نقشہ پگھل چکا تھا جو بدن خود بہ خود نہیں جلتے بلکہ جھونک دئے جاتے ہیں آگ کی بل کھائی ...

    مزید پڑھیے

    ایل او وی ای

    پاگل لڑکی دیواروں کو گالیاں دیتی ہے اور تھوک دیتی ہے آئنے پر ہوا کی طرف پھینکتی ہے اپنے گلابی جوتے اور بند ہونے والی آنکھوں پر پھیر دیتی ہے نیل پالش پور پہ سیفٹی پن لگاتی ہے اور سرخ لپ اسٹک سے ملا کر دیکھتی ہے باریک سی دھار کی خونی رنگت تمہارا ذہنی توازن بگڑ چکا ہے؟ تم انگلیوں ...

    مزید پڑھیے

    با عزت طریقے سے جینے کے جتن

    گذشتہ آل پارٹیز کانفرنس میں طے ہوا تھا کہ شہر بھر کی تاریکی آنکھ کے بوسیدہ پیالوں میں انڈیل کر صبح، دوپہر، شام باقاعدگی سے استعمال کی جائے تو اندھیروں میں جوتیاں ٹٹولنا سہل ہو جائے گا کون ننگے پاؤں محل کی طرف جائے کہ راستے میں اچکوں کے خوف سے کانچ کی زمین بچھا دی گئی ہے ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    نقشہ بدل چکا ہے

    حادثاتی موت کے بعد تمام چیخیں سہی سلامت کاغذ پہ اتار لی گئی ہیں اور چہرے مسخ کر دئیے گئے ہیں لاشوں کے لوگ اپنے اپنے لہو کی زندہ تصویریں مردہ ہاتھوں میں لئے دیواروں کو گھورتے ہیں اور گھورتے ہی چلے جاتے ہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2