Sidra Sahar Imran

سدرہ سحر عمران

سدرہ سحر عمران کی غزل

    جلتا چراغ رات کی چوکھٹ پہ چھوڑ کر

    جلتا چراغ رات کی چوکھٹ پہ چھوڑ کر ہم آسمان سے لائے ہیں اک صبح توڑ کر جانے مری کتاب سے کیسے نکل گئے رکھے تھے اس کی یاد کے صفحات موڑ کر شاید ہمارے وصل کی صورت نکل پڑے دیکھیں گے آج ہاتھ کی سطروں کو جوڑ کر گم ہو گئے ہیں سرمگیں الماریوں کے خواب آیا تھا کوئی رات کے تالوں کو توڑ کر اک ...

    مزید پڑھیے

    آسماں ایک کنارے سے اٹھا سکتی ہوں

    آسماں ایک کنارے سے اٹھا سکتی ہوں یعنی تقدیر ستارے سے اٹھا سکتی ہوں اپنے پاؤں پہ کھڑی ہوں تجھے کیا لگتا تھا خود کو بس تیرے سہارے سے اٹھا سکتی ہوں آنکھیں مشتاق ہزاروں ہیں مگر سوچ کے رکھ تیری تصویر نظارے سے اٹھا سکتی ہوں راکھ ہو جائے محبت کی حویلی پل میں اک تباہی میں شرارے سے ...

    مزید پڑھیے

    سفر کے بیچ وہ بولا کہ اپنے گھر جاؤں

    سفر کے بیچ وہ بولا کہ اپنے گھر جاؤں اندھیری رات میں تنہا میں اب کدھر جاؤں مجھے بگاڑ دیا ہے مرے ہی لوگوں نے کوئی خلوص سے چاہے تو میں سنور جاؤں مری جدائی میں گزری ہے زندگی کیسی یہ جی میں آئی ہے اس بار پوچھ کر جاؤں بتا تو کفر کا فتویٰ لگائے گا مجھ پر خدا میں مانوں تجھے اور پھر مکر ...

    مزید پڑھیے

    تو حرف آخری مرا قصہ تمام ہے

    تو حرف آخری مرا قصہ تمام ہے تیرے بغیر زندگی کرنا حرام ہے کرنے ہیں تیرے جسم پہ اک بار دستخط تاکہ خدا سے کہہ سکوں تو میرے نام ہے ہوتا ہے گفتگو میں بہت بار تذکرہ یعنی ہوا چراغ کا تکیہ کلام ہے پہلے پہل ملی تھی ہمیں شدتوں کی دھوپ اب یوں ہے رابطے کی سرائے میں شام ہے آخر میں بس نشاں ...

    مزید پڑھیے

    جاگتے دن کی گلی میں رات آنکھیں مل رہی ہے

    جاگتے دن کی گلی میں رات آنکھیں مل رہی ہے وقت گزرا جا رہا ہے دھوپ چھت سے ٹل رہی ہے اک لباس فاخرہ ہے سرخ غرقابی محل ہے کچھ پرانی ہو گئی ہے پر کہانی چل رہی ہے اک ستارہ ساز آنکھوں کے کنارے بس رہا ہے اک محبت نام کی لڑکی بدن میں پل رہی ہے پاس تھا کھویا نہیں ہے جو نہ تھا اب بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    لکڑی کی دو میزیں ہیں اک لوہے کی الماری ہے

    لکڑی کی دو میزیں ہیں اک لوہے کی الماری ہے اک شاعر کے کمرے جیسی ہم نے عمر گزاری ہے ایک سلاخوں والی کھڑکی جھانک رہی ہے آنگن میں دیواروں پر اوپر نیچے خوابوں کی گلکاری ہے منظر منظر بھیگ رہا ہے شہر کی خالی سڑکوں پر پکی نہر پہ گاؤں کے گھوڑے کی ٹاپ سواری ہے پیاس بجھانے آتے ہیں دکھ درد ...

    مزید پڑھیے

    میں تو کاغذ ہوں مجھے آگ پکڑ جائے گی

    میں تو کاغذ ہوں مجھے آگ پکڑ جائے گی پر تری بات ہواؤں سے بگڑ جائے گی خشک پیڑوں کی طرح زرد محبت ہے مری اس پہ سبزہ نہیں آیا تو یہ جھڑ جائے گی میں کہ مٹی کی عمارت ہوں کسی روز یوں ہی دل یہ ڈھ جائے گا ہر اینٹ اکھڑ جائے گی اتنا برفاب خموشی کا جزیرہ ہے یہاں چار دن ٹھہروں تو آواز اکڑ جائے ...

    مزید پڑھیے

    سفر کی دھوپ نے چہرہ اجال رکھا تھا

    سفر کی دھوپ نے چہرہ اجال رکھا تھا وہ مر گیا تو سرہانے وصال رکھا تھا حسین چہرے کشیدہ کیے تھے مٹی سے بلا کا خاک میں حسن و جمال رکھا تھا وہ حاشیوں میں ترے سرمگیں محبت تھی کہ آئنوں میں کوئی عکس ڈال رکھا تھا فلک کی سانس اکھڑنے لگی تو راز کھلا کہ آسماں کو زمیں نے سنبھال رکھا تھا ترا ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھوں کو عقیدت سے لگا کے رکھ لی

    اپنی آنکھوں کو عقیدت سے لگا کے رکھ لی تیری دہلیز کی مٹی تھی اٹھا کے رکھ لی تجھ کو تکتے ہی رہے رات بہت دیر تلک چاند کے طاق میں تصویر سجا کے رکھ لی دل سی نوخیز کلی تیری محبت کے لیے سینچ کے جذبوں سے پہلو میں کھلا کے رکھ لی اس نئے سال کے سواگت کے لیے پہلے سے ہم نے پوشاک اداسی کی سلا ...

    مزید پڑھیے

    بے خیالی میں کہا تھا کہ شناسائی نہیں

    بے خیالی میں کہا تھا کہ شناسائی نہیں زندگی روٹھ گئی لوٹ کے پھر آئی نہیں جو سمجھنا ہی نہ چاہے اسے سمجھائی نہیں جو بھی اک بار کہی بات وہ دہرائی نہیں حسن سادہ ہے ترا میں بھی بہت عام سی ہوں میری آنکھوں میں کسی نیل کی گہرائی نہیں میرا حصہ مجھے خاموشی سے دے دیتا ہے درد کے آگے ہتھیلی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2