Sidra Sahar Imran

سدرہ سحر عمران

سدرہ سحر عمران کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    جلتا چراغ رات کی چوکھٹ پہ چھوڑ کر

    جلتا چراغ رات کی چوکھٹ پہ چھوڑ کر ہم آسمان سے لائے ہیں اک صبح توڑ کر جانے مری کتاب سے کیسے نکل گئے رکھے تھے اس کی یاد کے صفحات موڑ کر شاید ہمارے وصل کی صورت نکل پڑے دیکھیں گے آج ہاتھ کی سطروں کو جوڑ کر گم ہو گئے ہیں سرمگیں الماریوں کے خواب آیا تھا کوئی رات کے تالوں کو توڑ کر اک ...

    مزید پڑھیے

    آسماں ایک کنارے سے اٹھا سکتی ہوں

    آسماں ایک کنارے سے اٹھا سکتی ہوں یعنی تقدیر ستارے سے اٹھا سکتی ہوں اپنے پاؤں پہ کھڑی ہوں تجھے کیا لگتا تھا خود کو بس تیرے سہارے سے اٹھا سکتی ہوں آنکھیں مشتاق ہزاروں ہیں مگر سوچ کے رکھ تیری تصویر نظارے سے اٹھا سکتی ہوں راکھ ہو جائے محبت کی حویلی پل میں اک تباہی میں شرارے سے ...

    مزید پڑھیے

    سفر کے بیچ وہ بولا کہ اپنے گھر جاؤں

    سفر کے بیچ وہ بولا کہ اپنے گھر جاؤں اندھیری رات میں تنہا میں اب کدھر جاؤں مجھے بگاڑ دیا ہے مرے ہی لوگوں نے کوئی خلوص سے چاہے تو میں سنور جاؤں مری جدائی میں گزری ہے زندگی کیسی یہ جی میں آئی ہے اس بار پوچھ کر جاؤں بتا تو کفر کا فتویٰ لگائے گا مجھ پر خدا میں مانوں تجھے اور پھر مکر ...

    مزید پڑھیے

    تو حرف آخری مرا قصہ تمام ہے

    تو حرف آخری مرا قصہ تمام ہے تیرے بغیر زندگی کرنا حرام ہے کرنے ہیں تیرے جسم پہ اک بار دستخط تاکہ خدا سے کہہ سکوں تو میرے نام ہے ہوتا ہے گفتگو میں بہت بار تذکرہ یعنی ہوا چراغ کا تکیہ کلام ہے پہلے پہل ملی تھی ہمیں شدتوں کی دھوپ اب یوں ہے رابطے کی سرائے میں شام ہے آخر میں بس نشاں ...

    مزید پڑھیے

    جاگتے دن کی گلی میں رات آنکھیں مل رہی ہے

    جاگتے دن کی گلی میں رات آنکھیں مل رہی ہے وقت گزرا جا رہا ہے دھوپ چھت سے ٹل رہی ہے اک لباس فاخرہ ہے سرخ غرقابی محل ہے کچھ پرانی ہو گئی ہے پر کہانی چل رہی ہے اک ستارہ ساز آنکھوں کے کنارے بس رہا ہے اک محبت نام کی لڑکی بدن میں پل رہی ہے پاس تھا کھویا نہیں ہے جو نہ تھا اب بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

16 نظم (Nazm)

    سڑک چھاپ

    پولیو کے قطرے پینے سے بھکاریوں کی بندر بانٹ میں کیسے کمی آ سکتی ہے؟ جبکہ گداگروں کے روحانی پیشوا اشتہار دیتے ہیں کہ انہیں بغیر ہاتھ پاؤں والے لوگوں کی اشد ضرورت ہے اور مجھے ہنسی آتی ہے ان مر جانے والوں پر جو ویکسینوں میں بھر دیے گئے

    مزید پڑھیے

    نا خلف مزاج کی مصدقہ تسلیمات

    میرے بدن کی چار دیواری کے لئے کھنکتی ہوئی مٹی کم تھی اس لئے خدا نے آنکھوں میں کانچ بھر دیا اور جہنم کے لپکتے ہوئے شعلوں کی جلن لہو میں رکھ دی میرے ہاتھوں میں لق و دق صحراؤں کی رتیلی وحشت چبائے ہوئے عکس کی لکیریں بناتی رہتی ہے اور ذہن کے رستے ہوئے پتیلے میں دن بھر برداشت کا لاوا ...

    مزید پڑھیے

    ناکام مذاکرات

    لوگ ربر بینڈ کی طرح ہاتھوں پہ چڑھائے جا سکتے ہیں پہنے جا سکتے ہیں پیروں میں کاغذ چھوٹی چھوٹی گولیوں میں تبدیل کئے جا سکتے ہیں جنہیں جب چاہو دیوار پہ دے مارو ان کو کوڑے‌ دان میں پھینکا جا سکتا ہے جالے اور وحشت اتاری جا سکتی ہے کمروں کی اتنی بھیانک اور نوکیلی ہیں ان کی آوازیں جو ...

    مزید پڑھیے

    جنم کدے میں ناجائز آنکھیں

    میں ٹیڑھی پسلی کا گستاخ جنم ہوں جس کے حلقوں میں بد تہذیب چیخوں کا ہجوم بغیر اطلاع دئیے نقارۂ بے‌‌ اماں کا راگ الاپتا ہے پھونکتا ہے آنکھ آنکھ میں دھواں ادھ جلے تعلقات کا مجھے پتھریلے احساس کے پنگھوڑوں میں کھلایا گیا سکھائی گئی بے ترتیب زندگی کی بندر بانٹ قلاش لوگوں کے ...

    مزید پڑھیے

    صبر آزما

    ہم کہاں کے ایوب تھے؟ جو رزق کی تلاش میں نکلے حشرات کو ہمارے بدن کا پتا دے دیا گیا ہمیں اپنے آپ کا بوجھ گوارہ نہیں کسی کی گزر اوقات کا انحصار ہم پہ کیوں ہو؟

    مزید پڑھیے

تمام