نشاط غم کے تئیں اک خط مماس ہوں آج
نشاط غم کے تئیں اک خط مماس ہوں آج
نصیب دشمناں زندہ ہوں بے ہراس ہوں آج
جدائی درد محبت تھی رسم ختم ہوئی
نہ وہ اداس ہوا کل نہ میں اداس ہوں آج
غریب دل بھی عجب غم نواز ہوتا ہے
خوشی ملی ہے تو کس درجہ بد حواس ہوں آج
میں در بہ در ہوں کہ مارا ہوا ضمیر کا ہوں
میں آئنہ تھا مگر کتنا بے لباس ہوں آج
اسیر دام شنیدن ہے فاصلہ ہمدم
کہ تو کہیں بھی رہے تیرے آس پاس ہوں آج
رگوں میں اب بھی قبیلے کا خون سرکش ہے
مگر وہ وصف کہاں صرف التباس ہوں آج