سنبھال اے مری مٹی بدل نہ جاؤں کہیں

سنبھال اے مری مٹی بدل نہ جاؤں کہیں
مجھے رلا دے کہ پتھر میں ڈھل نہ جاؤں کہیں


کمان جاں میں ہوں اک آخری نفس کا تیر
میں دسترس سے بھی اپنی نکل نہ جاؤں کہیں


سمیٹ لے مرے مہتاب مجھ کو سینے میں
جھلس رہی ہے کوئی شے میں جل نہ جاؤں کہیں


وفا کے نام پہ دے جو فریب دے مجھ کو
تباہ ہونے سے پہلے سنبھل نہ جاؤں کہیں


غریب‌ شہر سخن اپنی قدر و قیمت کیا
بہت ہے بھیڑ مجیبیؔ کچل نہ جاؤں کہیں