Shuoor Khedwala

شعور کھیڑوالا

شعور کھیڑوالا کی غزل

    سفیدی خیالوں میں آنے لگی ہے

    سفیدی خیالوں میں آنے لگی ہے مگر ایک خواہش ابھی تک ہری ہے چلی ہے یہ والد کے نقش قدم پر مری شاعری میرے غم پر گئی ہے جسے زندگی زندگی کہہ رہے ہو تمہیں جانب قبر کیوں لے چلی ہے میں غم کا تخلص خوشی رکھ رہا ہوں مری زیست آخر میں یوں ہنس پڑی ہے

    مزید پڑھیے

    طفل کو سلانا ہے تھپکیاں سمجھتی ہیں

    طفل کو سلانا ہے تھپکیاں سمجھتی ہیں فکر ساری ماؤں کی لوریاں سمجھتی ہیں آب و تاب رکھتے ہیں لوگ بھی سمندر بھی کون کتنا گہرا ہے ڈبکیاں سمجھتی ہیں صبح صبح جاتی ہیں روٹیاں کمانے کو باپ کی جو حالت ہے بیٹیاں سمجھتی ہیں وہ بھی ظلم سہتی ہیں وہ بھی ٹوٹ جاتی ہیں درد ایک عورت کا چوڑیاں ...

    مزید پڑھیے

    شعر تو بعد میں کہا میں نے

    شعر تو بعد میں کہا میں نے پہلے سوچا تھا قافیہ میں نے یہ نہیں کہ جلن ہوئی مجھ کو بس تری خوشیوں کو سہا میں نے عمر بھر ٹھوکریں جدھر کھائیں پھر وہی راستہ چنا میں نے گیٹ سے رشتے لوٹ جاتے ہیں پال کے رکھی ہے انا میں نے

    مزید پڑھیے

    اس نے مجھ کو یاد کیا ہے

    اس نے مجھ کو یاد کیا ہے لیکن میرے بعد کیا ہے دل کی بات بتا کر ہم نے اک رشتہ برباد کیا ہے عشق کیا تھا دونوں نے پر کس نے کس کو شاد کیا ہے پنچھی نے مرنے کی خاطر خود کو اب صیاد کیا ہے قید زیست سنا کر بولے جا تجھ کو آزاد کیا ہے آج غزل گائیں گے بادل دھرتی نے ارشاد کیا ہے

    مزید پڑھیے