طفل کو سلانا ہے تھپکیاں سمجھتی ہیں
طفل کو سلانا ہے تھپکیاں سمجھتی ہیں
فکر ساری ماؤں کی لوریاں سمجھتی ہیں
آب و تاب رکھتے ہیں لوگ بھی سمندر بھی
کون کتنا گہرا ہے ڈبکیاں سمجھتی ہیں
صبح صبح جاتی ہیں روٹیاں کمانے کو
باپ کی جو حالت ہے بیٹیاں سمجھتی ہیں
وہ بھی ظلم سہتی ہیں وہ بھی ٹوٹ جاتی ہیں
درد ایک عورت کا چوڑیاں سمجھتی ہیں
جب شعورؔ دلبر کا انتظار کرتا ہے
اس کی بے قراری کو کھڑکیاں سمجھتی ہیں