Shoib Bukhari

شعیب بخاری

  • 1986

شعیب بخاری کی غزل

    بھول بھی جائیں تجھے زخم پرانا بھی تو ہو

    بھول بھی جائیں تجھے زخم پرانا بھی تو ہو جی بھی لیں جینے کو جینے کا بہانہ بھی تو ہو ہم نے سیکھا ہی نہیں ترک مروت کا سبق بات بڑھتی ہے مگر بات بڑھانا بھی تو ہو اب کے مقتل کو کسی میلے کی زینت کر دو پھر تماشہ جو سجے ساتھ زمانہ بھی تو ہو دشت در دشت سہی آبلہ پائی ہی سہی اور مسافت ہی سہی ...

    مزید پڑھیے

    نشاط ہجر کو تیری کمی کو بھول گئے

    نشاط ہجر کو تیری کمی کو بھول گئے ترے خیال میں ڈوبے تجھی کو بھول گئے وہ دنیا دار ہیں ہم نے کبھی کہا تو نہ تھا عجیب لوگ ہیں اس سادگی کو بھول گئے عدو نے ہم سے ہمارا غرور مانگا تھا انا پرست تھے ہم زندگی کو بھول گئے جنوں کا ایک تقاضا تھا صرف سر مستی کتاب جھونک دی ہم آگہی کو بھول ...

    مزید پڑھیے

    کوئی سراغ کوئی نقش پا نہیں ملتا

    کوئی سراغ کوئی نقش پا نہیں ملتا تمہارے شہر کا اب راستہ نہیں ملتا کہو تو تم کو خدا مان لیں محبت کا کہ ہم کو تم سا کوئی دوسرا نہیں ملتا یہ دشت ہجر کی وحشت ہے صاحبان وفا یہاں کسی کو کوئی آسرا نہیں ملتا سنو ہمیں ہی جلا دو کہ روشنی کے لیے ہمارے شہر کو کوئی دیا نہیں ملتا ہوا نے کر دیا ...

    مزید پڑھیے