نشاط ہجر کو تیری کمی کو بھول گئے

نشاط ہجر کو تیری کمی کو بھول گئے
ترے خیال میں ڈوبے تجھی کو بھول گئے


وہ دنیا دار ہیں ہم نے کبھی کہا تو نہ تھا
عجیب لوگ ہیں اس سادگی کو بھول گئے


عدو نے ہم سے ہمارا غرور مانگا تھا
انا پرست تھے ہم زندگی کو بھول گئے


جنوں کا ایک تقاضا تھا صرف سر مستی
کتاب جھونک دی ہم آگہی کو بھول گئے


یہ کیسی بزم سجی قہقہہ نہیں گونجا
گماں ہے تم بھی کسی آدمی کو بھول گئے


کسی کے اشک نے سیراب کر دیا شاہ جیؔ
سو ہم غریب وطن تشنگی کو بھول گئے