بھول بھی جائیں تجھے زخم پرانا بھی تو ہو
بھول بھی جائیں تجھے زخم پرانا بھی تو ہو
جی بھی لیں جینے کو جینے کا بہانہ بھی تو ہو
ہم نے سیکھا ہی نہیں ترک مروت کا سبق
بات بڑھتی ہے مگر بات بڑھانا بھی تو ہو
اب کے مقتل کو کسی میلے کی زینت کر دو
پھر تماشہ جو سجے ساتھ زمانہ بھی تو ہو
دشت در دشت سہی آبلہ پائی ہی سہی
اور مسافت ہی سہی کوئی ٹھکانہ بھی تو ہو
آؤ یاران جفا! زخم کریدو دل کے
بزم یاراں ہے ذرا جلنا جلانا بھی تو ہو
شب کی ظلمت کی قسم شب میں اجالا کر دیں
ہم چراغوں سا جلیں تو کہیں آنا بھی تو ہو
ہم جو چاہیں تو ترا نقش مٹا دیں دل سے
ہاں مگر دل سے ترا نقش مٹانا بھی تو ہو
ہم کو مصلوب کرو لاشہ جلا دو چاہے
قبل تعزیر کوئی سننا سنانا بھی تو ہو
شاہ جی رات گئے دیر گئے تک بھٹکو
کیسی تاخیر کہیں لوٹ کے جانا بھی تو ہو