کوئی سراغ کوئی نقش پا نہیں ملتا

کوئی سراغ کوئی نقش پا نہیں ملتا
تمہارے شہر کا اب راستہ نہیں ملتا


کہو تو تم کو خدا مان لیں محبت کا
کہ ہم کو تم سا کوئی دوسرا نہیں ملتا


یہ دشت ہجر کی وحشت ہے صاحبان وفا
یہاں کسی کو کوئی آسرا نہیں ملتا


سنو ہمیں ہی جلا دو کہ روشنی کے لیے
ہمارے شہر کو کوئی دیا نہیں ملتا


ہوا نے کر دیا پامال روشنی کا بدن
چراغ بام کا کوئی پتہ نہیں ملتا


ہمیں تو جس نے پکارا خدا لگا ہم کو
وہ کون لوگ ہیں جن کو خدا نہیں ملتا


جہاں پہ کاٹی تھی تعزیر آبلہ پائی
یہیں کہیں تھا کوئی دشت سا نہیں ملتا


عجیب شہر ہے کوفہ مزاج لوگوں کا
کوئی بھی شخص قرین وفا نہیں ملتا


یہ وحشتوں کو بڑھانے کا وقت ہے شاہ جی
کہ خوشبوؤں کا کوئی سلسلہ نہیں ملتا