Shoaib Nizam

شعیب نظام

ممتاز ما بعد جدید شاعروں میں نمایاں

Prominent post-modern poet.

شعیب نظام کی غزل

    رات کا تاریک تر پتھر جگر پانی کریں

    رات کا تاریک تر پتھر جگر پانی کریں ہم بھلا کس کے لیے یہ کار لا ثانی کریں دن تو دن راتوں کو بھی یہ اپنی من مانی کریں مملکت پر دل کی یادیں جیسے سلطانی کریں بس گئے ہیں آنکھ میں منظر پس منظر سراب ہم کہاں تک اپنے خوابوں کی نگہبانی کریں اک طلسمی رنگ میں کھو جائیں جب چہرے تمام فرض ہے ...

    مزید پڑھیے

    سفر سرابوں کا بس آج کٹنے والا ہے

    سفر سرابوں کا بس آج کٹنے والا ہے کہ میرے پاؤں سے دریا لپٹنے والا ہے اٹھو کہ اب تو تمازت کا ذائقہ چکھ لیں شجر کا سایہ شجر میں سمٹنے والا ہے تو پھر یقین کی سرحد میں وار کر مجھ پر گماں کی دھند میں جب تیر اچٹنے والا ہے تو اتنا جس کی ضیا باریوں پہ نازاں ہے غبار شب سے وہ چہرہ بھی اٹنے ...

    مزید پڑھیے

    دروں کو چنتا ہوں دیوار سے نکلتا ہوں

    دروں کو چنتا ہوں دیوار سے نکلتا ہوں میں خود کو جیت کے اس ہار سے نکلتا ہوں تجھے شناخت نہیں ہے مرے لہو کی کیا میں روز صبح کے اخبار سے نکلتا ہوں مری تلاش میں اس پار لوگ جاتے ہیں مگر میں ڈوب کے اس پار سے نکلتا ہوں عجیب خوف ہے دونوں کو کیا کیا جائے میں قد میں اپنے ہی سردار سے نکلتا ...

    مزید پڑھیے

    دنیا سے دنیا میں رہ کر کیسے کنارہ کر رکھا ہے

    دنیا سے دنیا میں رہ کر کیسے کنارہ کر رکھا ہے دیکھ تو آ کر کس صورت سے ہم نے گزارہ کر رکھا ہے پہلے تو ہم دنیا سمجھے لیکن اب احساس ہوا ہے جوش جنوں میں ہم نے خود کو پارہ پارہ کر رکھا ہے اتنا نور کہاں سے لاؤں تاریکی کے اس جنگل میں دو جگنو ہی پاس تھے اپنے جن کو ستارہ کر رکھا ہے دیکھ سکو ...

    مزید پڑھیے

    ہوس کے بیج بدن جب سے دل میں بونے لگا

    ہوس کے بیج بدن جب سے دل میں بونے لگا میں خود سے ملنے کے سارے جواز کھونے لگا رفیق صبح تھا سورج سے رشتہ داری تھی سپاہ شب میں یہ کس کا شمار ہونے لگا عجیب منظر آخر تھا بجھتی آنکھوں میں وہ مجھ کو مار کے بے اختیار رونے لگا اس احتیاط کی سرحد سزا سے ملتی ہے لہو کا نام لیا آستین دھونے ...

    مزید پڑھیے

    کسی نادیدہ شے کی چاہ میں اکثر بدلتے ہیں

    کسی نادیدہ شے کی چاہ میں اکثر بدلتے ہیں کبھی آنکھیں کبھی چہرہ کبھی منظر بدلتے ہیں کسی محفوظ گوشے کی طلب مجبور کرتی ہے مکیں بدلے نہیں جاتے ہیں سو ہم گھر بدلتے ہیں میاں بازار کو شرمندہ کرنا کیا ضروری ہے کہیں اس دور میں تہذیب کے زیور بدلتے ہیں یہ انجانے پرندے کون سے جنگل سے آئے ...

    مزید پڑھیے

    یہاں رہنے میں دشواری بہت ہے

    یہاں رہنے میں دشواری بہت ہے یہی مٹی مگر پیاری بہت ہے ہوس سے ملتے جلتے عشق میں اب جنوں کم ہے اداکاری بہت ہے چلو اب عشق کا ہی کھیل کھیلیں ادھر کچھ دن سے بیکاری بہت ہے میں سائے کو اٹھانا چاہتا ہوں اٹھا لیتا مگر بھاری بہت ہے ادھر بھی خامشی کا شور برپا ادھر سنتے ہیں تیاری بہت ...

    مزید پڑھیے

    تیرا چہرہ دیکھ کے ہر شب صبح دوبارہ لکھتی ہے

    تیرا چہرہ دیکھ کے ہر شب صبح دوبارہ لکھتی ہے برگ گل پر موج صبا بھی نام تمہارا لکھتی ہے چپہ چپہ میرا ماضی جس کے دم سے روشن ہے اپنے دل پر وہ بھی کبھی کیا نام تمہارا لکھتی ہے کس کا چہرہ کس کی آنکھیں دیکھ کے کالی لمبی رات سوچ میں ڈوبی چپکے چپکے چاند ستارہ لکھتی ہے بے بس کشتی پڑھ لیتی ...

    مزید پڑھیے

    نخل دعا کبھی جب دل کی زمیں سے نکلے

    نخل دعا کبھی جب دل کی زمیں سے نکلے سائے بھی کچھ گماں کے برگ یقیں سے نکلے نظریں جمائے رکھنا امید کے کھنڈر پر ممکن ہے اب کے سورج اس کی جبیں سے نکلے خود سے فرار اتنا آسان بھی نہیں ہے سائے کریں گے پیچھا کوئی کہیں سے نکلے زخمی انا کو یوں میں ہر بار چھیڑتا ہوں مثبت سا اک اشارہ شاید ...

    مزید پڑھیے

    مزاج لے کے بالآخر جدا کدھر جائے

    مزاج لے کے بالآخر جدا کدھر جائے چراغ دوست بنے ہیں ہوا کدھر جائے دلوں سے ربط ہے کوئی نہ درد سے رشتہ کوئی بتائے بھلا اب دعا کدھر جائے ہر اک نگاہ میں اک خوف بھی ہے خواہش بھی کسے پتا وہ ستارہ ادا کدھر جائے فصیل بند ہیں سب بوئے گل کے شیدائی چمن سے نکلے تو باد صبا کدھر جائے ہر ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2