Sheen Kaaf Nizam

شین کاف نظام

  • 1947

ممتاز ما بعد جدید شاعر، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

Prominent post-modern poet, Sahitya Academy award winner.

شین کاف نظام کی غزل

    وہ گنگناتے راستے خوابوں کے کیا ہوئے

    وہ گنگناتے راستے خوابوں کے کیا ہوئے ویرانہ کیوں ہیں بستیاں باشندے کیا ہوئے وہ جاگتی جبینیں کہاں جا کے سو گئیں وہ بولتے بدن جو سمٹتے تھے کیا ہوئے جن سے اندھیری راتوں میں جل جاتے تھے دیے کتنے حسین لوگ تھے کیا جانے کیا ہوئے خاموش کیوں ہو کوئی تو بولو جواب دو بستی میں چار چاند سے ...

    مزید پڑھیے

    نگاہوں پر نگہبانی بہت ہے

    نگاہوں پر نگہبانی بہت ہے نوازش ظل سبحانی بہت ہے یہاں ایسے ہی ہم کب بیٹھ جاتے ترے کوچہ میں ویرانی بہت ہے ابھی قصد سفر کا قصہ کیسا ابھی راہوں میں آسانی بہت ہے تری آنکھیں خدا محفوظ رکھے تری آنکھوں میں حیرانی بہت ہے لب دریا زباں سے تر کریں گے ابھی تلوار میں پانی بہت ہے مبارک ان ...

    مزید پڑھیے

    منزلوں کا نشان کب دے گا

    منزلوں کا نشان کب دے گا آہ کو آسمان کب دے گا عظمتوں کا نشان کب دے گا میرے حق میں بیان کب دے گا ظلم تو بے زبان ہے لیکن زخم کو تو زبان کب دے گا صبح سجدے سمیٹے سوئی ہے پر اندھیرا اذان کب دے گا ان ٹھٹھرتے ہوئے اجالوں کو دھوپ سا سائبان کب دے گا موج ماہی نگل نہ جائے کہیں نوح سا نگہبان ...

    مزید پڑھیے

    وہی نہ ملنے کا غم اور وہی گلا ہوگا

    وہی نہ ملنے کا غم اور وہی گلا ہوگا میں جانتا ہوں مجھے اس نے کیا لکھا ہوگا کواڑوں پر لکھی ابجد گواہی دیتی ہے وہ ہفت رنگی کہیں چاک ڈھونڈھتا ہوگا پرانے وقتوں کا ہے قصر زندگی میری تمہارا نام بھی اس میں کہیں لکھا ہوگا چبھن یہ پیٹھ میں کیسی ہے مڑ کے دیکھ تو لے کہیں کوئی تجھے پیچھے سے ...

    مزید پڑھیے

    دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے

    دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے آنکھوں کو عطا خواب کئے شکریہ لیکن پیکر بھی کوئی خوابوں میں ڈھلنے کے لیے دے پانی کا ہی پیکر کسی پربت کو عطا کر اک بوند ہی ندی کو اچھلنے کے لیے دے سہمی ہوئی شاخوں کو ذرا سی کوئی مہلت سورج کی سواری کو نگلنے کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    آرزو تھی ایک دن تجھ سے ملوں

    آرزو تھی ایک دن تجھ سے ملوں مل گیا تو سوچتا ہوں کیا کروں جسم تو بھی اور میں بھی جسم ہوں کس طرح پھر تیرا پیراہن بنوں راستہ کوئی کہیں ملتا نہیں جسم میں جنموں سے اپنے قید ہوں تھی گھٹن پہلے بھی پر ایسی نہ تھی جی میں آتا ہے کہ کھڑکی کھول دوں خودکشی کے سینکڑوں انداز ہیں آرزو ہی کا نہ ...

    مزید پڑھیے

    مرے اندر جو اندیشہ نہیں ہے

    مرے اندر جو اندیشہ نہیں ہے تو کیا میرا کوئی اپنا نہیں ہے کوئی پتا کہیں پردہ نہیں ہے تو کیا اب دشت میں دریا نہیں ہے تو کیا اب کچھ بھی در پردہ نہیں ہے یہ جنگل ہے تو کیوں خطرہ نہیں ہے کہاں جاتی ہیں بارش کی دعائیں شجر پر ایک بھی پتہ نہیں ہے درختوں پر سبھی پھل ہیں سلامت پرندہ کیوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3