رتجگا

اندھیری رات ہوا تیز برشگال کا شور
کروں تو کیسے کروں شمع کی نگہبانی
ان آندھیوں میں کف دست کا سہارا کیا


کہاں چلے گئے تم سونپ کر یہ دولت نور
مری حیات تو جگنو کی روشنی میں کٹی
نہ آفتاب سے نسبت نہ ماہتاب رفیق


جنم جنم کی سیاہی برس برس کی یہ رات
قدم قدم کا اندھیرا نفس نفس کی یہ رات
تمہاری نکہت برباد کو ترستی ہے


اب آؤ آ کے امانت سنبھال لو اپنی
تمام عمر کا یہ رتجگا تمام ہوا
میں تھک گیا ہوں مجھے نیند آئی جاتی ہے