سونا آنگن نیند میں ایسے چونک اٹھا ہے

سونا آنگن نیند میں ایسے چونک اٹھا ہے
سوتے میں بھی جیسے کوئی سسکی لیتا ہے


گھر میں تو اس ماحول کا میں عادی ہوں لیکن
بازاروں کی ویرانی سے دم گھٹتا ہے


مدت سے میں سوچ رہا تھا اب سمجھا ہوں
جیب اور آنکھ کے خالی پن میں کیا رشتہ ہے


اتنے لوگ مجھے رخصت کرنے آئے ہیں
گھر واپس جانا بھی تماشا سا لگتا ہے


لوگ تو اپنی جانب سے کچھ جوڑ ہی لیں گے
اتنی ادھوری باتیں ہیں وہ کیوں کرتا ہے


اپنی کیا ان رستوں کے بارے میں سوچوں
ان کا سفر تو میری عمر سے بھی لمبا ہے


اس کی آنکھوں سے اوجھل مت ہونا شارقؔ
پیچھا کرنے والا بہت تنہا ہوتا ہے