سفر سے مجھ کو بد دل کر رہا تھا

سفر سے مجھ کو بد دل کر رہا تھا
بھنور کا کام ساحل کر رہا تھا


وہ سمجھا ہی کہاں اس مرتبے کو
میں اس کو دکھ میں شامل کر رہا تھا


ہماری فتح تھی مقتول ہونا
یہی کوشش تو قاتل کر رہا تھا


کوئی تو تھا مرے ہی قافلے میں
جو میرا کام مشکل کر رہا تھا


وہ ٹھکرا کر گیا اس دور میں جب
میں جو چاہوں وہ حاصل کر رہا تھا


تری باتوں میں یوں بھی آ گیا میں
بھٹکنے کا بہت دل کر رہا تھا


کوئی مجھ سا ہی دیوانہ تھا شاید
جو ویرانے میں محفل کر رہا تھا


یہ دل خود غرض دل غم خوار تیرا
خوشی غم میں بھی حاصل کر رہا تھا


سمجھتا تھا میں سازش آئنے کی
مجھے میرے مقابل کر رہا تھا