Shariq Jamal Nagpuri

شارق جمال ناگپوری

شارق جمال ناگپوری کی غزل

    اس کو جس سے خون کا رشتہ نہ تھا

    اس کو جس سے خون کا رشتہ نہ تھا کیسے ہم کہتے کہ وہ اپنا نہ تھا تشنہ لب تھے لوگ دریا کے قریب دشت میں لیکن کوئی پیاسا نہ تھا ہر نفس اک کرب ہے دل میں لیے آدمی اتنا کبھی ٹوٹا نہ تھا درد کی اک بھیڑ تھی میرے قریب زندگی میں میں کبھی تنہا نہ تھا ریت کی تحریر تھی میرا وجود یاد رکھنا میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ جس طرف بھی مخاطب دکھائی دیتا ہے

    وہ جس طرف بھی مخاطب دکھائی دیتا ہے تمام شہر اسی جانب دکھائی دیتا ہے نہ جانے کرب ہے کیسا میرے تکلم میں اداس میرا مخاطب دکھائی دیتا ہے تعلقات کی دیوار کیسے پختہ ہو خلوص ایک ہی جانب دکھائی دیتا ہے ملا ہے جس کی جبیں پر نشان خاک وہ شخص عروج ذات کا طالب دکھائی دیتا ہے

    مزید پڑھیے

    خود کو انعام کے پا لینے کا دھوکا دے کر

    خود کو انعام کے پا لینے کا دھوکا دے کر ڈاکیہ چہرے کو پڑھتا ہے لفافہ دے کر ریل ہر سمت سے روز آ کے گزر جاتی ہے شہر کو میرے کئی رنگ کا چہرہ دے کر کس نے بچوں کی طرح تالی بجائی ہوگی کس کو خوش اس نے کیا ہے مجھے دنیا دے کر خضر ہونے کا جو دعویٰ ہے تو سیدھا کر دو کسی گرتی ہوئی دیوار کو ...

    مزید پڑھیے

    ادھورا جسم لیے پیچھے ہٹ رہا ہوں میں

    ادھورا جسم لیے پیچھے ہٹ رہا ہوں میں کہ اک کنارا ہوں دریا کا کٹ رہا ہوں میں مرے وجود کو وسعت نہیں کسی بھی طرح ہر ایک سمت سے ہر روز گھٹ رہا ہوں میں اثر پذیر ہوں اک زلزلے سے ہستی کے زمیں کے جیسے ہر اک سانس پھٹ رہا ہوں میں ہیں میرے واسطے خنجر شعاعیں سورج کی کھلی سڑک پہ ہوں ہر لمحہ کٹ ...

    مزید پڑھیے

    شخصیت جس کی انا الحق کی سزا وار لگے

    شخصیت جس کی انا الحق کی سزا وار لگے ہر طرف اس کے نہ کیوں فلسفۂ دار لگے سانس میں روکوں تو رک جائے نظام عالم نبض ہاتھوں کی مرے وقت کی رفتار لگے خبر حال چمن کیوں نہ ملے ناظر کو ورق چہرۂ گل صفحۂ اخبار لگے ہو گئی عام اندھیرے کی خبر چھپ نہ سکی صبح ہر چہرے ہمیں رات کے اخبار لگے جس کی ...

    مزید پڑھیے

    جلتی رت میں وہ پھیلتا سایہ رکھ دے گا

    جلتی رت میں وہ پھیلتا سایہ رکھ دے گا میری آنکھ پہ دھوپ کا چشمہ رکھ دے گا پیاس کو میرے لب سے چمٹتے دیکھ کے وہ پاؤں میں میرے جھیل کا رستہ رکھ دے گا جانے نہ دو گل دانوں تک اس بچے کو توڑ کے ہر گملے کا غنچہ رکھ دے گا جس سے مجھے ہے انس پرانی قدروں سا میرے نصیب میں اس کا صدمہ رکھ دے ...

    مزید پڑھیے

    جب آفتاب کی آگ اس زمیں کو چاٹے گی

    جب آفتاب کی آگ اس زمیں کو چاٹے گی مکاں کی کھوج میں سڑکوں پہ بھیڑ بھاگے گی میں دیکھتا ہی رہوں گا ترے سراپا کو جب آنکھ سوئے گی میری نگاہ جاگے گی جو ڈس رہی ہے ابھی جاگتی نگاہوں کی سویرا ہوتے ہی وہ رات زہر کھائے گی جو سونا چاہو تو دروازے بند کر لینا کھلا رہے گا یہ کمرہ تو دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    دکھائی دیں گے جو گل میز پر قرینے سے

    دکھائی دیں گے جو گل میز پر قرینے سے ہوائیں چھیڑیں گی آ کر کھلے دریچے سے خلا میں آج سکوں اپنا ڈھونڈھتا ہے وہی بہل گیا تھا جو بچہ کبھی کھلونے سے تمہارے دل میں ہے اک کرب سا کسی کے لیے یہ بات ہم نے پڑھی ہے تمہارے چہرے سے جلے دل تو یقیناً لبوں پہ ہوگی کراہ دھواں تو پھیلے گا جنگل میں ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ نہ پایا جس پیکر کو وعدوں کی انگنائی میں

    دیکھ نہ پایا جس پیکر کو وعدوں کی انگنائی میں ڈھونڈ رہا ہوں اس کا چہرہ خوابوں میں تنہائی میں کیسے ہو معلوم یہ آخر پروائی کے جھونکوں کو پھولوں پر کیا بیت چکی ہے شاخوں کی انگڑائی میں ڈھلتے سورج کی آنکھوں نے آخر مجھ کو ڈھونڈ لیا چھپ نہ سکا میں بھی پیپل کے سائے کی لمبائی میں پا کر ...

    مزید پڑھیے

    آپ کی تنقیص پر تیکھے ہوئے

    آپ کی تنقیص پر تیکھے ہوئے ورنہ ہم بھی تھے کبھی سلجھے ہوئے تم بھی ہو میری طرح بکھرے ہوئے کہہ رہے ہیں آئنے ٹوٹے ہوئے جن کے سایہ میں ہو تم بیٹھے ہوئے وہ شجر وہ پیڑ ہیں سوکھے ہوئے رک چکی ہے سانس اب کاہے کی آس زندگی کے ختم سب قصے ہوئے ہو گیا سورج غروب اور آئی رات راستے سب گاؤں کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2