جلتی رت میں وہ پھیلتا سایہ رکھ دے گا

جلتی رت میں وہ پھیلتا سایہ رکھ دے گا
میری آنکھ پہ دھوپ کا چشمہ رکھ دے گا


پیاس کو میرے لب سے چمٹتے دیکھ کے وہ
پاؤں میں میرے جھیل کا رستہ رکھ دے گا


جانے نہ دو گل دانوں تک اس بچے کو
توڑ کے ہر گملے کا غنچہ رکھ دے گا


جس سے مجھے ہے انس پرانی قدروں سا
میرے نصیب میں اس کا صدمہ رکھ دے گا


میری راہ کی حاجب کا ہے اس کو جو پاس
میرے ساتھ سفر کا توشہ رکھ دے گا


ایک دن اس کے شہر میں پہنچوں گا میں بھی
میرے ذہن میں کوئی ذریعہ رکھ دے گا


خوف ہے میرا دشمن میری ہستی میں
ایک صدی سا کوئی لمحہ رکھ دے گا


دیکھ سکے گا وہ نہ ہماری خوشیوں کو
بات میں کوئی فکر کا نکتہ رکھ دے گا