غم دوست کو آسائش دنیا سے غرض کیا
غم دوست کو آسائش دنیا سے غرض کیا بیمار محبت کو مسیحا سے غرض کیا سر تا بہ قدم بندۂ تسلیم و رضا ہوں مجھ عاشق صادق کو تمنا سے غرض کیا کوچہ ہے ترا اور ہے دن رات کا چکر وحشی کو ترے گلشن و صحرا سے غرض کیا وعدہ نہ کرو جلوۂ دیدار دکھاؤ امروز کے مشتاق کو فردا سے غرض کیا تم باغ میں جاتے ہو ...