قاصد نہیں یہ وقت سوال و جواب کا

قاصد نہیں یہ وقت سوال و جواب کا
اب حال غیر ہے دل خانہ خراب کا


تم دیکھنے کی چیز ہو دیکھا کرے کوئی
یہ حسن یہ جمال یہ عالم شباب کا


تمہید بے خودی تھا کہاں تھا حواس و ہوش
خلوت میں آ کے ان کا الٹنا نقاب کا


کیا آتش فراق نے دل پر اثر کیا
ان آنسوؤں میں میرے مزا ہے کباب کا


ہم نے تو اپنی آنکھ سے دیکھا نہیں انہیں
قصہ سنا ہے حضرت شنکرؔ کے خواب کا