مقدر اپنا برگشتہ مخالف آسماں اپنا
مقدر اپنا برگشتہ مخالف آسماں اپنا
وہ کیا روٹھا کہ دشمن ہو گیا سارا جہاں اپنا
الٰہی ہو گیا بے وجہ دشمن باغباں اپنا
کہاں لے جائیں گلشن سے اٹھا کر آشیاں اپنا
بگڑ جائے نہ گلچیں ہے زمانے کی ہوا بگڑی
بنایا تو ہے بلبل شاخ گل پر آشیاں اپنا
فسانہ بن کے اپنا عشق دنیا کی زباں پر ہے
دیا تھا ہم نے دل تم کو سمجھ کر رازداں اپنا
وفا کی قدر کیا ہوتی ستم کے ہو گئے خوگر
بنایا ان کو دشمن ہم نے دے کر امتحاں اپنا
خدا کی ذات پر ہم کو تو اے شنکرؔ بھروسا ہے
بلا سے دشمن جاں ہو جو ہے سارا جہاں اپنا